سنّت کیا ہے

حضرت انس بن مالک کی ایک روایت الدارمی میں اِن الفاظ میں آئی ہے: إذا وُضع الطّعام فاخلعوا نِعالکم، فإنہ أروح لأقدامکم (سُنن الدَّارمی، کتاب الأطعمۃ؛ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث:4240)۔ یعنی جب کھانا رکھا جائے تو تم اپنے جوتے اتار دو، کیوں کہ ایسا کرنے میں تمھارے پاؤں کے لیے راحت ہے۔

اِس حدیث میں کھانے کے وقت جوتا اتارنے کی مصلحت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ تمھارے لیے زیادہ پُر راحت طریقہ ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کھانے کے وقت جوتا اتارنا، کوئی مطلق نوعیت کی سنت نہیں، اس کا مقصد صرف راحت ہے۔ یہی معاملہ اُن تمام ’’سنتوں ‘‘ کا ہے جن میں آدابِ حیات کو بتایا گیا ہے۔ آدابِ حیات کے بارے میں کوئی طریقہ مطلق طورپر اچھا، یا بُرا نہیں ہوتا، بلکہ اُس کا تعلق تمام تر راحت سے ہوتا ہے۔ جس وقت جس طریقے میں انسان کے لیے راحت ہو، وہی طریقہ سنت کا طریقہ قرار پائے گا۔

مثال کے طورپر آپ کو کار میں بیٹھنا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، کار میں دائیں اور بائیں دونوں طرف دروازے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کار میں اُس کے دائیں طرف کے دروازے سے بیٹھ رہے ہوں، تو سہولت یہ ہوگی کہ آپ پہلے اپنا بایاں پاؤں کار میں داخل کریں۔ اِسی طرح اگر آپ کار کے بائیں دروازے سے اس میں بیٹھ رہے ہوں، تو آپ کے لیے سہولت یہ ہوگی کہ آپ پہلے اپنا دایاں پاؤں کار میں داخل کریں۔ اس کے برعکس طریقہ اختیار کرنا، آپ کے لیے غیر ضروری مشقت کا باعث ہوگا۔ ٹھیک یہی معاملہ کار سے اترنے کا بھی ہے۔

ایسی حالت میں اگر کوئی شخص کار میں بیٹھنے کی سنت یہ بتائے کہ اُس میں داخل ہوتے ہوئے ہرحال میں اپنا دایاں پاؤں کارکے اندر داخل کرو، اور اترتـے ہوئے ہر حال میں اپنا بایاں پاؤں اس کے اندر سے نکالو، تو ایسا کرنا راحت کے بجائے زحمت کا باعث بن جائے گا۔ جب کہ آدابِ زندگی کے بارے میں سنت ہمیشہ راحت پر مبنی ہوتی ہے، نہ کہ غیرضروری مشقت پر۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom