تین قسم
عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: «الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَاثْنَانِ فِي النَّارِ، فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ: فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ، وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ فَهُوَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ (سنن أبي داود،حدیث نمبر 3573،سنن ابن ماجه ، حدیث نمبر 2315)
حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ فیصلہ کرنے والے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک جنت میں جائے گا اور دو آگ میں جائیں گے ۔ پس جنت والا وہ شخص ہے جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا ۔ اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے حق کو پہچانا پھر اس کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ آگ میں جائے گا۔ تیسرا شخص وہ ہے جو جہالت کی بنیاد پر لوگوں کے لیے فیصلہ کرے تو وہ بھی آگ میں جانے والا ہے ۔
حق کو جاننے کے لیے باطل کے پردوں کو پھاڑنا پڑتا ہے ۔ پھر حق کو جاننے کے بعد اس کو ماننا اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بھی قربانی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ اس معرفت اور اس قربانی کا ثبوت دیں وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرتے ہیں کہ انھیں جنت میں داخل کیا جائے اور بلاشبہ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے ابدی باغوں میں داخل کیے جائیں گے۔
بقیہ دو قسم کے لوگ جنت میں جگہ پانے کے قابل نہیں ۔ جو شخص حق کو جاننے کے بعد اس سے انحراف کرے وہ خدا کے مقابلہ میں سر کشی کرتا ہے ۔ ایسے شخص کو جہنم کے سوا اور کہاں جگہ مل سکتی ہے۔ اسی طرح تیسرا شخص بھی خدا کی سزا کا مستحق ہے ۔ کیوں کہ وہ خدا کے معاملےمیں سنجیدہ ثابت نہ ہو سکا۔ کوشش کے باوجود اجتہادی خطا کرنا قابل معافی ہے مگر تیاری اور تحقیق کےبغیر شرعی امور میں فیصلے دینا قابل معافی نہیں ۔
یہاں جس" فیصلہ "کا ذکر ہے ، اس کا تعلق صرف عدالت سے نہیں بلکہ تمام امور سے ہے ۔ ہر آدمی ہر آن فیصلے کر رہا ہے ، ہر آدمی ہر آن اپنے آپ کو یا جنت کا مستحق بنا رہا ہے یا دوزخ کا۔