ملت کا المیہ
ایک لڑکا باہر سے اپنے گھر میں آتا ہے اور اپنے باپ سے کہتا ہے کہ فلاں لڑکے نے مجھے گالی دی ہے۔ باپ فوراً غصہ ہو جاتا ہے اور باہر نکل کر اس لڑکے سے جھگڑنے لگتا ہے جس کے خلاف اس کے بیٹے نے شکایت کی تھی ۔ اس کے برعکس ایک اور باپ ہے۔ اس کا لڑ کا باہر سے منہ بنائے ہوئے آیا اور محلہ کے لڑکے کے بارے میں شکایت کی کہ اس نے مجھے گالی دی ہے۔ باپ نے دوسرے لڑکے کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ اس نے صرف اپنے بیٹے کو سرزنش کی کہ تم ایسے لڑکوں کے پاس کیوں گئے ۔ کیا تمہارے پاس کرنے کا کوئی اور کام نہ تھا۔
وہ باپ یقیناً جھوٹا باپ ہے جو ہر معاملہ میں اپنے بیٹے کی حمایت کرتا ہے ۔ ایسے باپ کے لڑکوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ آوارہ ہو جاتے ہیں۔ وہ نہ کوئی ہنر سیکھتے اور نہ تعلیم حاصل کر پاتے۔ آخر کار وہ دادا گیری کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں تا کہ اپنی نالائقی کو دوسروں کے اوپر انڈیل سکیں ۔ اس کے برعکس دوسرا باپ سچا باپ ہے۔ اس کے لڑکے خود تعمیری کی راہ پر لگتے ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر ترقی کر کے اپنا مستقبل بھی بناتے ہیں اور اسی کےساتھ اپنی قوم کا مستقبل بھی۔
ہندستان کے مسلمانوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ ان کے تمام لیڈر ، خواہ وہ بے ریش ہوں یا باریش، سب کے سب اپنی قوم کے حق میں صرف "جھوٹے باپ" ثابت ہوئے ہیں۔ یہ لیڈر نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے جو کچھ کر رہے ہیں ، اس کا خلاصہ ایک لفظ میں یہ ہے کہ –––––– مسلمانوں کو یک طرفہ طور پر بے قصور بتا کر ایڈ منسٹریشن کو یک طرفہ طور پر قصور وار ٹھہرانا ہمارے تمام لیڈر بلا استثناء مسلمانوں کے معاملہ میں مسلسل یہی روش اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
یہ روش کسی قوم کے لیے ہلاکت سے کم نہیں ۔ اس کا نقصان تمام فرقہ وارانہ فسادات میں ہونے والے مجموعی نقصان سے بھی سیکڑوں گنا زیادہ ہے ۔ قوم کے قاتل کا لقب اگر صحیح طور پر کسی کے اوپر چسپاں ہوتا ہے تو وہ بلا شبہ یہی مسلم لیڈر ہیں جو قوم کی خیر خواہی کے نام پر قوم کے سب سے بڑے بدخواہ بنے ہوئے ہیں ۔
اس قسم کی قومی وکالت قوم کے حق میں حوصلہ کشی کے ہم معنی ہے ۔ اس روش کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس نے مسلمانوں سے عمل کا جذبہ چھین لیا ہے ۔ اس دنیا میں ہر گروہ ہر حال میں مسائل سے دوچار ہوتا ہے ۔ یہ گروہ اگر مسائل کی ذمہ داری خود قبول کرے تو اس کے اندر عمل کا جذبہ ابھرے گا۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنے مسائل کی ذمہ داری دوسروں کے اوپرڈال دے تو قدرتی طور پر اس کے اندر عمل کا محرک ختم ہو جائے گا ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی گروہ کے مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو بتانا اس گروہ کو بے عملی کا سبق دینا ہے ، اور ہمارے تمام لیڈر مسلسل یہی مجرمانہ فعل انجام دے رہے ہیں ۔ ہر معاملہ میں ایڈمنسٹریشن ( انتظامیہ) کو ملزم ٹھہرانا بظاہر بہت خوش کن معلوم ہوتا ہے ۔ مگر قوم کو اس کی یہ مہنگی قیمت دینی پڑتی ہے کہ اس کا جذبۂ عمل سرد پڑ جاتا ہے ۔ اس کے افراد کے اندر یہ مزاج بن جاتا ہے کہ ہم جن کمیوں اور خرابیوں سے دوچار ہیں ، اس کے ذمہ دار ہم خود نہیں ہیں بلکہ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو ہمیں ان کمیوں اور خرابیوں میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ یہ نفسیات جن لوگوں کے اندر پیدا ہو جائے وہ "اپنی تعمیر آپ "کی تڑپ سے خالی ہو جاتے ہیں، اور جو لوگ اپنی تعمیرآپ کی تڑپ سے خالی ہو جا ئیں ان کے لیے مقابلہ کی اس دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں۔
مسلم قیادت کی اس مجرما نہ روش کی ایک مثال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ مسلم یونیورسٹی میں مسلسل یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ وہاں جو شخص بھی وائس چانسلر ہو کر جاتا ہے۔ شروع میں اس کا استقبال کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جلد ہی وہ معتوب ہو جاتا ہے ۔ اس کے خلاف یو نیورسٹی کے مسلم طلبہ ایجی ٹیشن چلاتے ہیں ۔ اس ایجی ٹیشن میں مسلم صحافت اور مسلم قیادت بلا استثناء ان کا ساتھ دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وائس چانسلر کو بدنامی کا داغ لے کر یو نیورسٹی کو خیر بادکہنا پڑتا ہے ۔
ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ وائس چانسلر جب علی گڑھ پہنچ کر قریب سے حالات کو دیکھتا ہے تو وہ پاتا ہے کہ اس "قومی ادارہ "میں بہت سی اندرونی خرابیاں ہیں جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ وہاں ایسے "نو نہالان ملت " گھسے ہوئے ہیں جن کو پڑھنے سے زیادہ دادا گیری سے دل چسپی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
وائس چانسلر اس قسم کے عناصر کے خلاف ضروری کارروائی کرتا ہے تاکہ یونیورسٹی کے فاسد عضو کا آپریشن کر کے اس کے بقیہ جسم کو صحت مند بنا سکے ۔ اب جن افراد پر اس اصلاحی عمل کی زد پڑتی ہے ، وہ" اسلام خطرہ میں "اور "یونیورسٹی کا اقلیتی کردار خطرہ میں" جیسے جذباتی نعرے لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے ذاتی مسئلہ کو ایک ملی مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ وہ هنگامہ بازی کا طریقہ اختیار کر کے یونیورسٹی کی تعلیمی فضا کو درہم برہم دیتے ہیں ۔
جب ایسا ہوتا ہے تو ہر بار تمام مسلم قائدین ، خواہ وہ بے ریش قیادت سے تعلق رکھتے ہوں یا باریش قیادت سے ، دوبارہ اسی سبق کو دہرانا شروع کر دیتے ہیں جس کو وہ دوسرے مسلم معاملات میں دہراتے رہے ہیں۔ وہ وائس چانسلر کو" ایڈ منسٹریشن" کا نمائندہ فرض کر لیتے ہیں اور طلبہ کو" مسلم ملت کا نمائندہ " ۔ اور پھر بلا تحقیق مسلم طلبہ کو معصوم قرار دے کر یک طرفہ طور پر وائس چانسلر کو ملزم ٹھہرانے لگتے ہیں۔ وہ اپنے الفاظ کے تمام کارتوس اس کے اوپر خالی کر دیتے ہیں ۔
اس صورت حال کا سب سے بڑا نقصان خود یونیورسٹی کو پہنچا ہے۔ اس نے مسلم یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو مسلمہ طور پر پست کر دیا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ اب خود اچھے مسلم خاندانوں کے طلبہ کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی "سکنڈ چوائس " بن چکی ہے۔ یعنی اب وہ مسلم یونیورسٹی میں صرف اس وقت داخلہ لیتے ہیں جب کہ انھیں کسی اور یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملا ہو۔ حتی کہ وہ مسلم لیڈر جو اخباری بیان میں مسلم یونیورسٹی کے چیمپین بنے ہوئے نظر آتے ہیں ، وہ بھی اپنے بیٹے بیٹیوں کی تعلیم کے لیے مسلم یونیورسٹی کے بجائے دوسری یونیورسٹیوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔
یہ طریقہ جو ہمارے لیڈروں نے اسلام کے نام پر اختیار کر رکھا ہے ، وہ اسلام تو کیا ہو گا وہ غیر اسلام بھی نہیں ہے ۔ کیوں کہ اسلام خوف خداوندی کی زمین پر کھڑا ہوتا ہے اور غیر اسلام حقیقت پسندی کی زمین پر ۔ اور مذکورہ بالا روش کا تعلق نہ خوف خدا سے ہے اورنہ حقیقت پسندی سے ۔
ہندستان کے دستور نے مذہبی اقلیتوں کو یہ خصوصی حق دیا ہے کہ وہ حکومت کی اعانت پر اپنے تعلیمی ادارے قائم کر سکیں۔ اس رعایت کا اطلاق جن مذہبی اقلیتوں پر ہوتا ہے ، ان میں سے دو اقلیتیں خاص ہیں۔ ایک مسلمان ، دوسرے عیسائی ۔ چنانچہ دونوں نے اپنے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جن کو حکومت کے خزانہ سے باقاعدہ طور پر مالی امداد دی جاتی ہے ۔
مگر دونوں اقلیتوں میں انتہائی نمایاں فرق ہے۔ مسلمانوں نے "اقلیتی ادارہ" کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ اس میں مسلم اقلیت کو خصوصی رعایت دی جائے ۔ مثلاً مسلمان لڑکے کم نمبر لائیں حتی ٰکہ فیل ہو جائیں تب بھی انھیں جگہ دی جائے ۔ کسی مسلمان طالب علم کو داخلہ سے محروم نہ کیا جائے۔ عیسائی حضرات نے اپنے اقلیتی اداروں میں اس کے بالکل برعکس اصول کی پیروی کی۔ انھوں نے یہ کوشش کی کہ اپنے ادارہ کو اعلیٰ ترین تعلیمی معیار پر ترقی دیں۔ مسلمانوں نے اقلیتی ادارہ کا مطلب اقلیتی رعایت کا ادارہ سمجھا تھا۔ مگر عیسائی حضرات نے اقلیتی ادارہ کو اقلیتی آئیڈیل کا ادارہ بنانے پر ساری توجہ لگا دی ۔ انھوں نے داخلہ کے معاملہ میں حد درجہ سختی اور اصول پسندی کا طریقہ اختیار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی تعلیمی ادارے ملک کے سب سے زیادہ اچھے ادارے سمجھے جانے لگے ۔ ان کے معیار کے بارے میں یہ کہنا کافی ہو گا کہ وہ " کرسچین اسکول" ہے ۔
ایک طرف مسلمانوں کے تعلیمی ادارے ہیں جو کمتر معیار کے لیے نمونہ بن گئے ہیں۔ دوسری طرف عیسائی حضرات کے تعلیمی ادارے ہیں جو سارے ملک میں برتر معیار کا نمونہ بنے ہوئے ہیں ۔ حتی ٰکہ اب خود صاحبِ حیثیت مسلمان بڑی بڑی فیس ادا کر کے اپنے بچوں کو عیسائی تعلیمی اداروں میں داخل کرتے ہیں اور ان کو وہاں کا طالب علم بنا کر فخر محسوس کرتے ہیں ۔
مسلمانوں کا یہ مزاج میرے نزدیک علمی خود کشی کے ہم معنیٰ ہے ۔ مسلمان اگر آج کی دنیا میں با عزت زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے اداروں کو رعایت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصول کی بنیاد پر چلانا ہوگا۔ اور اس پر حد درجہ سختی کے ساتھ عمل کرنا ہو گا تا کہ مسلمانوں کے ادارے اعلیٰ معیار کا نمونہ بنیں ۔ حتیٰ کہ سارے ملک میں وہ طالبان علم کے لیے "فرسٹ چوائس " بن جائیں۔ نہ کہ "سکنڈ چوائس" یا "تھرڈ چوائس" جیسا کہ آج وہ عملاً بنے ہوئے ہیں ۔
اکثر ایسا ہوا ہے کہ علی گڑھ کے وائس چانسلر کو سفیر یا گورنر وغیرہ غیرہ : بنا دیا گیا ۔ "اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ جو شخص بھی یونیورسٹی میں وائس چانسلر ہو کر آتا ہے ، اس کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ نئی دہلی کو زیادہ سے زیادہ خوش کرے تاکہ آئندہ کے لیے اس کی اعزازی سیٹ محفوظ ہو جائے۔ علیگڑھ کے وائس چانسلر کے لیے نئی دہلی کو خوش کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ یونیورسٹی کا اسٹینڈرڈ بڑھانے کے نام پر داخلوں میں میرٹ کا اصول جاری کر دے ۔ چوں کہ ہند و طلبہ تعلیم میں آگے ہیں اس لیے اس اصول کو جاری کرنے کا نتیجہ عملاً یہ ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کے تمام اہم شعبوں (سائنس، انجینیرنگ، طب) پر ہندو طلبہ قابض ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ مسلم یونیورسٹی میں ہر سال مسلمانوں کا تناسب گھٹتا جا رہا ہے ۔ اس بنا پر علی گڑھ میں مسلمانوں کو رعایتی داخلے ملنے چاہئیں" ۔ان حضرات کو شاید معلوم نہیں کہ پاکستان (سندھ) میں بھی ہند و طلبہ وہاں کے سائنس اور انجینرنگ اور طب کے شعبوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ پھر پاکستان میں کس وائس چانسلر کی" غداری" کی بنا پر ایسا ہو رہا ہے۔
میرے نزدیک اس قسم کا مطالبہ زندگی کا مطالبہ نہیں بلکہ موت کا مطالبہ ہے۔ یہ حقیقت واقعہ سے لڑنا ہے، اور حقیقت واقعہ سے لڑنے والا صرف اپنا سر توڑتا ہے ۔ وہ حقیقتِ واقعہ میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتا ۔ یہ بالکل یقینی ہے کہ مسلمانوں کے مطالبہ اور احتجاج کے باوجود یونیورسٹی میں یہ عمل جاری رہے گا ، جیسا کہ وہ اب تک جاری رہا ہے۔ خواہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر خود احتجاجی مہم کے کسی لیڈر کو کیوں نہ بنا دیا جائے ۔ یہ ایک ناقا بل عمل مطالبہ ہے ، اور نا قابل عمل مطالبہ اس دنیا میں کبھی واقعہ نہیں بنتا۔
یہ مقابلے کی دنیا ہے۔ یہاں کسی کو زندگی کا مقام صرف استحقاق ثابت کرنے پر ملتا ہے۔ اس دنیا میں صرف وہ شخص کامیاب ہوتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ رعایت کی بنیاد پر حق نہ ملے تو وہ امتیاز کی بنیاد پر اپنا حق وصول کرے۔ دنیا اگر اس کو برابری (Equal) کی سطح پر قبول نہ کر رہی ہو تو وہ برابری سے زیادہ (More than equal) کی سطح پر اپنی حیثیت کو منوائے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حقیقت کو بدلنے کے بجائے خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں ۔ علی گڑھ میں اگر مسلمان طلبہ کم ہورہے ہیں تو انھیں اپنی محنت کو بڑھا کر اس کمی پر قابو پانا چاہیے۔ احتجاج اور مطالبہ کے ذریعہ یہ مسئلہ کبھی حل ہونے والا نہیں۔
ایک واقعہ
ایک لیڈر صاحب سے میری گفتگو ہوئی۔ ان کے دولڑ کے ایک" غیر مسلم "تعلیمی ادارہ میں اعلیٰ سائنسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ نے اپنے لڑکوں کو مسلم یونیورسٹی میں کیوں نہیں داخل کیا، ان کو آپ غیر مسلم ادارہ میں کیوں تعلیم دلا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہاں مقابلہ (Competition) کا ماحول ہے ، جب کہ مسلم یونیورسٹی میں مقابلہ کا ماحول نہیں اور آپ جانتے ہیں کہ بڑی ترقی حاصل کرنے کے لیے مقابلے کا ماحول بے حد ضروری ہے۔
میں نے کہا کہ مسلم یونیورسٹی کے بارے میں آپ جو بیانات دیتے رہے ہیں اس میں آپ نے مسلسل اس نظریہ کی وکالت کی ہے کہ مسلم یونیورسٹی میں داخلوں کے لیے رعایت (Relaxation) ہونا چاہیے۔ پھر جب بڑی ترقیاں مقابلے کے ذریعہ ہوتی ہیں تو آپ مسلم یونیورسٹی میں اس کے خلاف ماحول کیوں بنانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عام مسلم طلبہ کے ساتھ اگر مسلم یونیورسٹی میں رعایت نہ کی جائے تو دوسری کون سی جگہ ہے جہاں وہ اپنےلیے رعایت پاسکیں گے۔ پھر ان کا انجام کیا ہوگا۔
میں نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اولاد کے لیے تو آپ یہ چاہتے ہیں کہ ان کو ایسے ماحول میں ڈالیں جہاں محنت کا محرک موجود ہوتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کر کےزیادہ سے زیادہ آگے بڑھیں ۔ مگر قوم کے بچوں کے لیے محنت کا محرک ختم کرکے انھیں کاہل بنا دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے تعلیمی طور پر پیچھے ہو جائیں۔ اپنے بچوں کو آپ تعلیمی ہیرو دیکھنا چاہتے ہیں اور دوسروں کے بچوں کو تعلیمی ہریجن ۔
یہی موجودہ زمانے کے تمام مسلم لیڈروں کا حال ہے۔ وہ اپنی اولاد کے لیے کچھ پسند کرتے ہیں اور ملت کی اولاد کے لیے کچھ۔ یہی وجہ ہے کہ لیڈر اور ان کے متعلقین کامیابی کی راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ مگر ملت کے حصے میں اس کے سوا کچھ اور نہ آیا کہ وہ جلسوں کی بھیڑ کے ذریعے لیڈروں کی شان قیادت میں اضافہ کریں اور اس کے بعد بر بادی کانشان بن کر رہ جائیں۔
خلاصۂ کلام
سیاست کی دو قسمیں ہیں۔ ایک باہر رخی (Outward oriented) سیاست ۔ اور دوسرے اندر رخی (Inward oriented) سیاست ۔ با ہر رخی سیاست وہ ہے جس میں کسی بیرونی طاقت کو نشانہ بنا کر اس کے خلاف دھوم مچار جائے ۔ اس کے مقابلے میں اندر رخی سیاست وہ ہے جس میں اندرونی کمیوں کو نشانہ بنا کران کی اصلاح پر ساری طاقت صرف کی جائے۔ پہلے قسم کی سیاست احتجاج ِغیر کا ذہن پیدا کرتی ہے اور دوسرے قسم کی سیاست تعمیر ِخویش کا ۔
یہ مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ ان کے درمیان نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے باہر رخی سیاست کا ہنگامہ جاری ہے۔ یہ بلاشبہ جھوٹی سیاست ہے۔ اس قسم کی سیاست کچھ سطحی لیڈروں کے لیے ذاتی طور پر مفید ہو سکتی ہے ، مگر وسیع تر ملت کے لیے وہ یقینی طور پر زہر ہے۔ موجودہ مقابلے کی دنیا میں ترقی کا واحد راز ذاتی جد و جہد ہے ، اور یہی وہ قیمتی سرمایہ ہے جس سے لیڈروں کی موجودہ قسم کی سیاست نے مسلمانوں کو محروم کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ دنیا جد و جہد کی دنیا ہے ۔ یہاں رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھنا ہے۔ یہاں مخالفتوں کے باوجود اپنے لیے راہ نکالنا ہے ۔ جو لوگ اس امتحان میں پورے اتریں ، وہی اس دنیا میں کامیاب ہوں گے ۔ اور جو لوگ اس امتحان میں پورے نہ اتریں ، ان کے لیے خدا کی اس دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔