موقع شناسی

غزوۂ احد شوال 3 ھ میں پیش آیا۔ اس جنگ میں ابتداءً  مسلمان غالب رہے ۔ مگر بعد کو انہیں شکست ہوئی ۔ تقریباً  ستر اصحاب شہید ہوئے ۔ جب مسلمان منتشر ہو گئے تو دشمنوں کا ہجوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا۔ انھوں نے آپ کے اوپر پتھر پھینکنے شروع کیے۔ عبد الله بن قمئہ اور عقبہ بن ابی وقاص وغیرہ نے آپ پر اس زور کے ساتھ پتھر مارے کہ آپ کا چہرہ لہو لہان ہو گیا ۔ سامنے کا دانت ٹوٹ گیا ۔ لوہے کی خود کی دو کڑیاں آپ کے رخسار میں اندر تک گھس گئیں۔ بعد کو ابو عبیدہ بن الجراح نے ان کڑیوں کو اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو ان کے دو دانت ٹوٹ گئے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو کر ایک پہلو پر گر پڑے ۔ اس وقت آپ نے پہاڑ کے ایک گڑھے میں پناہ لی تاکہ آپ دشمنوں کی نظر سے اوجھل ہو جائیں۔ لوگوں نے آپ کو نہیں دیکھا تو مشہور ہو گیا کہ آپ شہید ہو گئے ۔ اس خبر سے آپ کے اصحاب میں زبر دست سراسیمگی پھیل گئی۔ اس ہنگامی حالت میں جو مختلف واقعات پیش آئے ان میں سے ایک یہ تھا :

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ عَرَفَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ الْهَزِيمَةِ، وَقَوْلُ النَّاسِ: قُتِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، كَمَا ذَكَرَ لِي ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: عَرَفْتُ عَيْنَيْهِ تَزْهَرَانِ [3] ‌مِنْ ‌تَحْتِ ‌الْمِغْفَرِ، فَنَادَيْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، أَبْشِرُوا، هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَأَشَارَ إلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: أَنْ أَنْصِتْ ( سيرة ابن هشام، (2/ 83)

ابن اسحاق کہتے ہیں۔ اور پہلا شخص جس نے شکست کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا اور لوگوں کے اس قول کے بعد کہ آپ قتل کر دیے گئے ، جیسا کہ ابن شہاب زہری نے بیان کیا ، وہ کعب بن مالک ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کی دونوں آنکھوں کو خود کے اندر سے چمکتے ہوتے دیکھا اس وقت میں نے بلند آواز سے پکارا ، اے مسلمانو ، تمہارے لیے خوش خبری ہو۔ یہ ہیں اللہ کےرسول  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اشارہ فرمایا کہ چپ رہو ۔

صحابی نے اس وقت جو جملہ کہا تھا اس کو الگ کر کے دیکھیے ۔ انھوں نے صرف یہ کہا تھا کہ مسلمانو ، تمہیں خوش خبری ہو ، اللہ کے رسول یہاں موجود ہیں ۔ بظاہر یہ ایک صحیح اور معصوم جملہ ہے ۔ بلکہ وہ ایک ایسا جملہ ہے جس پر کہنے والے کو ثواب ملنا چاہیے اور اس کی تعریف میں احسنت اور صدقت کا غلغلہ بلند ہونا چاہیے ۔ مگر عملاً اس کے برعکس ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے انھیں چپ رہنے کے لیے کہا۔ اور وہ بھی زبان سے نہیں کہا بلکہ اشارہ سے کہا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ نے اس وقت نہ خود بولنا پسند فرمایا اور نہ یہ چاہا کہ کوئی دوسرا شخص اس موقع پر بولے ۔

مذکورہ موقع پر کیوں ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بولنے سے منع فرمایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت آپ دشمنوں کی نگاہ سے اوجھل تھے۔ چوں کہ اس وقت آپ شدید زخمی تھے ، اس لیے آپ کا لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہنا ہی قرین ِمصلحت تھا۔ اگر وہ لوگ جان لیتے کہ آپ یہاں گڑھے میں ہیں تو وہ ہجوم کر کے وہاں آتے اور آپ کے اوپر مزید پتھر برسانا شروع کر دیتے ۔ ایسے نازک موقع پر چپ رہنا زیادہ بہتر تھا نہ کہ بولنا ۔

 اسی کا نام موقع شناسی ہے ۔ عملی کارروائی ہمیشہ حالات اور مواقع کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔ جس کارروائی میں حالات اور مواقع کی رعایت شامل نہ ہو وہ خود کشی ہے نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی عملی کارروائی ۔

حالات کبھی یکساں نہیں رہتے ، ان میں بار بار تبدیلی ہوتی ہے ، اس لیے طریق عمل میں بھی بار بار تبدیلی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کبھی ایک مقصد کو اعلان کے ساتھ حاصل کیا جاتا ہے کبھی اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اخفاء کا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ کبھی آدمی مجبور ہوتا ہے کہ فریق ثانی کے ساتھ مقابلہ کرے، کبھی زیادہ کامیاب تدبیر یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مقابلہ کے میدان سے ہٹا دے۔ کبھی پانے کی کوشش کا نام پانا ہوتا ہے اور کبھی پانا اس کا نام ہوتا ہے کہ کھونے کو برداشت کر لیا جائے۔

موجودہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے یہ حکمت اتنی زیادہ ضروری ہے کہ اللہ کے پیغمبر کو بھی اس کی رعایت کرنی پڑی ، پھر دوسرے لوگ اس کی رعایت کیے بغیر کیسے کوئی حقیقی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom