حکمت ِدعوت
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْمٍ وَاِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ اَللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ ۔(الحج: 67 – 69)
ہر امت کے لیے ہم نے ایک طریقہ ٹھہرا دیا تو وہ اسی طرح عمل کرتے ہیں ۔ پس وہ تم سے اس امر میں جھگڑا نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف بلاؤ ۔بیشک تم سیدھی راہ پر ہو۔ اور اگر وہ تم سے جھگڑا کریں تو کہو کہ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔ اللہ تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے ۔
اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں یہ روایت آئی ہے کہ وہ اس وقت اتری جب کہ مشرکوں (بدیل بن ورقاء ، بشر بن سفیان، یزید بن خنیس) نے اہل ایمان سے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے کہ جس جانور کو تم نے مارا اس کو تم کھاتے ہو اور جس جانور کو خدا نے مارا اس کو تم نہیں کھاتے، یعنی مردار کو۔نَزَلَتْ حِينَ قَالَ الْمُشْرِكُونَ لِلْمُسْلِمِينَ مَا لَكُمْ تَأْكُلُونَ مَا قَتَلْتُمْ وَلَا تَأْكُلُونَ مَا قَتَلَهُ اللَّهُ يَعْنِي الْمَيْتَةَ . (تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل (2/ 453)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرب میں تشریف لائے تو عرب کے لوگ معروف معنوں میں بے دین نہ تھے۔ انھوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے نام پر ایک ڈھانچہ اختیار کر رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی لائی ہوئی تعلیمات اس مذہبی ڈھانچہ سے ٹکراتی تھیں ۔ (مثلاً ان کے مروجہ مذہب میں مردار جائز تھا ، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم اس کو حرام بتاتے تھے) اس طرح کے اختلافات کی بنا پر وہ آپ سے بد کتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو بزرگوں کے راستے پر چلنے والا کہتے تھے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بزرگوں سے ہٹ کر نیا راستہ نکالا ہے ۔
اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی کہ آپ ان ظواہر میں نہ الجھیں۔ جو لوگ اس قسم کی چیزوں کو لے کر بحث کرنے آئیں ۔ ان سے اعراض کرتے ہوئے اصل صراط مستقیم (دعوت الٰی اللہ) پر قائم رہیں۔ داعی کو چاہیے کہ وہ اپنے مدعو کے سامنے ہمیشہ اساسی تعلیمات رکھے ، وہ ظاہری امور اور فروعی اختلافات میں اس سے نہ الجھے ۔
آیت میں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ کا فقرہ ہے ۔ اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اس امر میں وہ تم سے جھگڑا نہ کریں۔ یہاں خطاب کا رخ بظاہر فریق ثانی کی طرف ہے ۔ مگر یہ ایک اسلوب ہے ۔ ورنہ یہاں اصل مخاطب خود فریق اول ہے۔ یعنی ظاہر کلام کے اعتبار سے مدعو سے کہا جارہا ہے کہ وہ جھگڑا نہ کریں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے یہاں یہ کہا گیا ہے کہ تم ان سے جھگڑا نہ کرو۔ عربی میں اگر یہ کہا جائے کہ لا یضربنّك زید تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ زید کو منع کیا گیا کہ وہ تم کو نہ مارے ۔ بلکہ خود مخاطب سےکہا گیا کہ تم یک طرفہ احتیاط کے ذریعہ اس کی کوشش کرو کہ زید تم کو مارنے نہ پائے :
قَالَ الزُجَاجُ مَعْنَى قَوْلِهِ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ لَا تُنَازِعُهُمْ أَنْتَ كَمَا يُقَالُ لَا يُخَاصِمُنَّكَ فُلَأْنٌ أَيْ لَا تُخَاصِمْهُ وَهَذَا جَائِزٌ فِيمَا يَكُونُ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَلَا يَجُوزُ لَا يَضْرِبُنَّكَ زَيْدٌ تُرِيدُ لَا تَضْرِبْهُ وَجَاز لَا يُضَارِبُنَّكَ زَيْدٌ بِمَعْنَى لَا تَضْرِبُهُ وَذَلِكَ لِأَنَّ الْمُنَازَعَةَ وَالْمُخَاصَمَةلَاتَتِمُّ إلَّا بِاثْنَيْنِ فَإِذَا تَرَكَ أَحَدُهُمَا ذَهَبَتِ الْمُخَاصَمَة . (التفسير المظهري (6/ 346)
زجاج نے کہا کہ لا یناز عنک کا مطلب یہ ہے کہ تم خود ان سے نزاع نہ کرو۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے فلاں آدمی تم سے مخاصمت نہ کرے ، یعنی تم اس سے مخاصمت کی نوبت نہ آنے دو۔ یہ اس وقت کے لیے ہے جب کہ نزاع دو آدمیوں کے درمیان ہو۔ اس لیے کہ نزاع اور جھگڑا دو آدمیوں کے بغیرنہیں ہو سکتا۔ پس جب دونوں میں سے ایک شخص نزاع چھوڑ دے تو جھگڑا اپنے آپ ختم ہو جائے گا ۔
اس قرآنی حکم کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو شخص خدا کے دین کی دعوت دینا چاہتا ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ دعوت کے ساتھ نزاع کو جمع نہ کرے ۔
داعی اور مدعو کے درمیان اگر نزاع کی فضا ہو تو مدعو کبھی کھلے ذہن کے ساتھ داعی کی بات نہیں سنے گا۔ اس لیے داعی کو یک طرفہ طور پر یہ ذمہ داری لینی پڑتی ہے کہ صبر اور اعراض کا طریقہ اختیار کر کے اپنے اور مدعو کے درمیان معتدل فضا کو باقی رکھے تا کہ مدعو اس کی باتوں پر ہمدردانہ غور کر سکے ۔
ہر نزاع ختم ہو سکتی ہے، بشر طیکہ ایک فریق اس کو بلا شرط ختم کر دے۔