روزہ کے بارےمیں
روایات میں آتا ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنےخطبہ دیا۔ اس خطبہ میں آپ نے رمضان کے مہینہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت بتائی :
قَالَ عَلی رَضّی اللَّهُ عَنْهُ فَقُمتُ فَقُلتُ: يَا رَسُولَ الله! مَا أَفضَلُ الأَعمَالِ فِي هَذَا الشَّهرِ
فَقَالَ: "يَا أَبَا الحَسَنِ! أَفضَلُ الأَعمَالِ فِي هَذَا الشَّهرِ: الوَرَعُ عَن مَحَارِمِ الله عزَّ وجلَّ"
(فتاوى الشبكة الإسلامية (3/ 1738)
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں کھڑا ہوا اور میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، اس مہینہ میں سب سے بہتر عمل کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا : اے ابو الحسن ، اس مہینہ میں سب سے بہتر عمل ہے اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا ۔
اس روایت سے روزہ کی اصل روح معلوم ہوتی ہے ۔ روزہ کی اصل روح ان چیزوں سے اپنےآپ کو روکنا ہے جن سے رکنے کا خدا نے حکم دیا ہے ۔ رمضان کے دنوں میں کھانے پینے جیسی چیزوں سے روزہ رکھنے کا حکم در اصل اسی کا عملی سبق ہے ۔ کھانا پینا وہ آخری چیز ہے جس سے کسی آدمی کوروکا جائے ۔ انسان کو آخری ضرورت سے روکنا اس کو شدید تر انداز میں یہ سبق دینا ہے کہ خدا نے جن چیزوں سے تمہیں روکا ہے ان سے لاز ماً تمہیں رکنا ہے، خواہ یہ رکنا تمہارے ذوق اور عادت کےلیے کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو ، خواہ اس کی فہرست تمہاری زندگی کی لازمی ضرورتوں تک کیوں نہ پہنچ جائے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وآله وسلم: " مَا مِنْ عَبْدٍ يُصْبِحُ صَائِمًا فَيُشْتَمُ فَيَقُولُ: سَلَامٌ عَلَيْكُمْ إِنِّي صَائِمٌ، إِلَّا قَالَ اللَّهُ عز وجل: اسْتَجَارَ عَبْدِي مِنْ عَبْدِي بِالصِّيَامِ فَأَدْخِلُوهُ الْجَنَّةَ " (الإيماء إلى زوائد الأمالي والأجزاء (5/ 98)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما من عبد صائم يُشتم فيقول سلام عليكم لا أشتمك كما تشتمنى إلا قال الرب تبارك وتعالى : استجار عبدی بالصوم من شرّ عبدی فقد أجرته من النار۔
رسول اللہ صلی للہ علیہ سلم نےفرمایا کہ جب بھی کسی روزہ دار کو گالی دی جائے اور وہ کہے کہ تم پر سلامتی ہو ، میں تم کو گالی نہیں دوں گا جیسے تم نے مجھ کو گالی دی تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے ایک شخص کی برائی سے روزہ کی پناہ لی تو میں نے بھی اس کو آگ سے پناہ دیدی ۔
روزہ کا مقصد یہ صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ آدمی کی زندگی پابند زندگی ہو نہ کہ بے قید زندگی۔