خبر نامہ اسلامی مرکز 38
1۔حیدر آباد کی سالانہ نمائش کے موقع پر فروری 1988 میں الرسالہ اور اسلامی مرکز کا بُک اسٹال لگایا گیا۔ اس کا اسٹال نمبر 72 – 471 تھا۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں الرسالہ کی خریداری قبول کی اور کتابیں حاصل کیں ۔ یہ اسٹال اسلامی مرکز کے مشن کے مزید وسیع پیمانہ پر تعارف کا ذریعہ بنا۔ اس اسٹال کا اہتمام الرسالہ اکیڈمی حیدر آباد کی طرف سے کیا گیا تھا۔
2۔بھوپال میں 26 – 29 دسمبر 1987 کو تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع ہوا۔ اس موقع پر مقامی حلقہ کی طرف سے اسلامی مرکز کا اسٹال لگایا گیا جس میں تمام کتابیں رکھی گئیں۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں آکر معلومات کیں اور کتابیں حاصل کیں ۔ اس کے علاوہ متعدد دوسرے اسٹالوں پر بھی مرکز کی کتابیں موجود تھیں وہاں سے بھی لوگ کتابیں حاصل کرتے رہے۔ بیک وقت کئی مکتبوں پر مرکز کی کتابوں کا رکھا جانا اس کی عوامی طلب میں اضافہ کاثبوت ہے ۔
3۔محمد عابد شاہ صاحب نے "اخبار اردو" کے لیے صدر اسلامی مرکز کا مفصل انٹرویو لیا۔ انٹرویو میں اسلامی مرکز کے مشن کے علاوہ مسلمانوں کے مسائل زیر گفتگو آئے ۔ یہ انٹرویو اخبار اردو کے شمارہ 29 جنوری 1988 میں شائع ہوا ہے ۔
4۔مسٹر آر بی ایل نگم دہلی کے ایک جرنلسٹ ہیں جو مختلف ہندی اور انگریزی اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ انھوں نے 25 جنوری 1988 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویوکا موضوع زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کے معاملات و مسائل تھے۔
5۔امراوتی یونیورسٹی (مہاراشٹر) نے بی اے فائنل (اردو) کے کورس کے لیے "انتخاب اردو"کے نام سے ایک کتابی سلسلہ شائع کیا ہے ۔ اس کتاب کے تیسرے حصہ میں الرسالہ جنوری 1984 کے ایک مضمون کو مکمل طور پر شامل کیا ہے ۔ یہ مضمون "ایٹمی ہلاکت" کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ واضح ہو کہ امراوتی یونیورسٹی کے تحت اس وقت چار اضلاع میں 80 کالج چل رہے ہیں ۔
6۔نئی دہلی میں آٹھویں عالمی کتابی نمائش 5 فروری سے 15 فروری 1988 تک ہوئی۔ اس نمائش میں ہندستان کے علاوہ 57 دوسرے ملکوں نے حصہ لیا اور مجموعی طور پر سات سو ناشرین اور کتب فروشوں نے اپنے اسٹال لگائے ۔ اس موقع پر مکتبہ الرسالہ اور اسلامی مرکز کی مطبوعات کا بھی اسٹال لگایا گیا ۔ لوگ کثیر تعداد میں آئے اور گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔
7۔الرسالہ ریڈرس سرکل دہلی کی طرف سے 30 جنوری 1988 کی شام کو غالب اکیڈمی (نئی دہلی) میں ایک اجتماع ہوا۔ اس کے صدر جناب سید حامد صاحب (سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )تھے ۔ صدر اسلامی مرکز نے اس موقع پر ایک مفصل تقریر کی ۔تقریر کا موضوع تھا : ہندستانی مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل ۔ پورا ہال نیچے سے اوپر تک بھرا ہوا تھا۔ شہر کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کثیر تعداد میں شریک ہوا ۔ اور مسٹر جاوید حبیب نے اناؤنسر کے فرائض انجام دیے۔
8۔مسلسل اطلاعات مل رہی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الرسالہ کا مشن اب خدا کے فضل سے عمومی تائید کے مرحلہ میں داخل ہو رہا ہے ۔ جگہ جگہ لوگ فساد کو روکنے کے لیے الرسالہ میں بتائی جانے والی حکیمانہ تدبیر کو اختیار کر رہے ہیں ۔ الرسالہ نومبر 1987 میں شائع شدہ مضمون "آزمودہ حل" کو بہت سے اخبارات ورسائل نے نقل کیا۔ مختلف لوگ الرسالہ کے حوالہ کے بغیر الرسالہ والی بات کو دہرا رہے ہیں۔ روز نامہ قومی آواز (5 جنوری 1988) نے "ضرورت ہے نئی قیادت کی " کے زیر عنوان ایک مفصل مضمون نمایاں طور پر شائع کیا ہے جس میں الرسالہ کے نقطہ ٔنظر کی صد فی صد تائید کی گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔
9۔الرسالہ کا مشن الحمد للہ خاموشی کے ساتھ صالح ذہن بنا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر یہاں ایک خط کا خلاصہ نقل کیا جاتا ہے۔ ایک نوجوان لکھتے ہیں : میں کالج کے میدان میں کچھ لڑکوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک ہم عمر بھائی نے مجھے بھری محفل میں بے عزت کر دیا ۔ حالاں کہ میں نے کوئی نا شائستہ لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالا تھا۔ مگر اچانک وہ اتنا ترش ہوا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ میں ایک لفظ نہیں بولا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔ اس واقعہ کے دو دن بعد وہ نوجوان دوبارہ مجھ سے ملا اور مجھ سے معافی مانگنے لگا کہ غلطی اسی کی تھی۔ بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ ہے ۔ لیکن اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ میں نے صبر کے ذریعہ اس نوجوان کے دل و دماغ پر فتح پائی۔ یہی وہ پیغام ہے جس کی تلقین آپ اپنی اعلیٰ تحریروں میں کرتے ہیں آپ کی کتابوں نے میرے ذہن کو حقیقت پسند بنا دیا ۔ اور میری زندگی کا نیا دور شروع ہو گیا۔ اب میں کہوں کہ میں نے از سر نو زندگی کا آغاز کیا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ (الطاف حسین شاہ کشمیر)
10۔ایک صاحب اپنے خط (12 فروری 1988) میں لکھتے ہیں : الرسالہ کے ذریعہ آپ قوم کو جو پیغام دے رہے ہیں وہ بہت تعمیری اور مثبت ہے ۔ الرسالہ کے مطالعہ نے میری زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی پیدا کی ہے ۔ پہلے میں مسلمانوں کی حالت زار کے لیے اکثریتی فرقہ اور حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتا تھا اور اس کے لیے فریق ثانی سے بدلہ لینا چاہتا تھا جس سے ہر وقت میں انتہا پسندی اور جذباتیت کا شکار رہتا تھا۔ اب میں مسلمانوں کی موجودہ حالت زار کو خود مسلمانوں کی غفلت ، کوتاہی اور ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ مانتا ہوں جس سے مجھ میں جوش کی جگہ ہوش اور شکایت کی جگہ عمل کی صلاحیت پیدا ہو رہی ہے ۔ (غفران الحق، نالندہ)
11۔ایک صاحب "تعبیر کی غلطی " کا مطالعہ کرنے بعد لکھتے ہیں : میں نے اسلام کی انقلابی تشریح کا جو تصور اپنے ذہن میں بنایا تھا ، آج اس کتاب (تعبیر کی غلطی) کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ 35 سالہ عمارت دھڑام سے گر پڑی ۔ اب میں نئی عمارت بنانے کی کھوج میں از سر نو منہمک ہو گیا ہوں (ہاشم ، بنگلور)
12۔ایک نئی کتاب چھپنے کے لیے پریس میں بھیجی گئی ہے۔ اس کا نام "میوات کا سفر" ہے۔صدر اسلامی مرکز نے پچھلے 20 برسوں میں میوات کے علاقے کے بہت سے سفر کیے تھے۔ ان کے سفرنامے بھی پہلے شائع ہوئے تھے ۔ اب ان تمام مضامین کو یکجا کر کے "میوات کا سفر "کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے ۔ پوری کتاب سبق اور نصیحت کی باتوں سے اور مختلف قسم کے تجربات سے بھری ہوئی ہے ۔ میوات کا سفر ایک اعتبار سے پوری ملت اسلامیہ ہند کا مطالعہ ہے ۔
13۔اسلامی مرکز ایک دینی اور تعمیری ادارہ ہے۔ اسلامی مرکز کے ساتھ تعاون کرنا دینی دعوت اور تعمیری مہم میں تعاون کرنا ہے ۔ آپ کا ہر قسم کا تعاون شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔اپنی رقوم بھیجتے ہوئے مد کی ضرور صراحت فرما دیں۔