راه ِعمل
قرآن کے فضائل کے سلسلہ میں جو حدیثیں آئی ہیں ان میں سے ایک حدیث یہ ہے :
عن عمر بن الخطاب أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهذا الكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخِرِينَ (صحیح مسلم،حدیث نمبر 817)
حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اللہ اس کتاب (قرآن) کے ذریعہ کچھ لوگوں کو اٹھاتا ہے اور کچھ دوسرےلوگوں کو گرا دیتا ہے ۔
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ کسی گروہ کے پاس قرآن کی محض موجود گی وہ چیز ہے جو اس کو ترقی اور کامیابی کے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو موجودہ زمانے کے مسلمان ہرگز تباہی اور بربادی کا شکار نہ ہوتے۔ کیوں کہ آج مسلمانوں کے پاس ہر جگہ قرآن موجود ہے ۔ آج پریس کا دور ہے۔ قرآن کے نہایت صحیح نسخے کروروں کی تعداد میں چھپ کر ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں۔ کوئی گھر اور کوئی مسلم بستی ایسی نہیں ہے جہاں قرآن کے نسخےلوگوں کے پاس موجود نہ ہوں ۔
پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے۔ کیوں کر ایسا ہوتا ہے کہ قرآن کے ذریعہ کوئی قوم اوپر اٹھتی ہے ، اور دوسری قوم قرآن کے ذریعہ سے گر کر تباہ ہو جاتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ نتیجہ قرآنی نقطہ ٔنظر کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ جو لوگ قرآنی نقطۂ نظر کو اختیار کریں وہ اس دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں ، اور جو لوگ قرآنی نقطۂ نظر کو اختیار نہ کریں وہ ناکام و نامراد ہو کررہ جاتے ہیں ۔
قرآن میں زندگی کی تمام حقیقتیں بتا دی گئی ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے :
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ (الأنبياء: 10)ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری جس میں تمہارا ذکر ہے ۔
اس آیت میں"ذکر "سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں ہم دو حوالے نقل کرتے ہیں :
(فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ) أَيْ ذِكْرُ مَا تَحْتَاجُونَ إلَيْهِ مِنْ أَمْرِ دِينِكُمْ (التفسير المظهري ،6/ 186)
فِیْه ذِكْرُ دِينِكُمْ وَدُنْيَاكُمْ (تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل ،2/ 396)
یعنی ان تمام باتوں کا تذکرہ جو دین کے معاملے میں تمہیں درکار ہیں ۔ قرآن میں تمہارے دین کا بھی ذکر ہے اور تمہاری دنیا کا بھی۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت جبرئیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ آئندہ فتنے ہوں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ اے جبریل ، پھر اس کا حل کیا ہے ۔ حضرت جبریل نے کہا کہ اللہ کی کتاب ۔ اس میں آپ سے پہلے کی خبر ہے اور اس میں آپ کے بعد کی خبر ہے اور اس میں فیصلہ موجود ہے۔نزل جبريل عليه السلام على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخبره: أنها ستكونُ فتَن، قال: فما المخرَجُ منها يا جبريل؟ قال: كتابُ الله، فيه نَبَأُ ما قبلَكم، ونبأ ما هو كائن بعدَكم، وفيه الحُكم بينكم (جامع الأصول ،8/ 464)
جب قرآن کی حیثیت یہ ہے تو ہم کو چاہیے کہ ہم اپنے مسائل کے لیے قرآن کو دیکھیں اور اسی کے اندر اس کا حل تلاش کریں ۔ قرآن کے اندر جب تمام جب تمام باتیں ہیں تو یقین اس کے اندر ہمارے موجودہ سنگین مسائل کا بیان بھی ہونا چاہیے ، اور یہ بھی کہ ان مسائل کا واقعی حل کیا ہے۔ ہمیں قرآن میں دیکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے مسائل کے بارے میں ہمیں کیا نقطۂ نظر دیتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ قرآن میں تمام مسائل کے بارے میں اعلیٰ رہنمائی موجود ہے ۔ مگر اس رہنمائی کو پانے کے لیے صرف قرآن کو پڑھ لینا کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کو اس کامل آمادگی کے ساتھ پڑھا جائے کہ جو رہنمائی قرآن میں ملے گی اس کو میں بے چون و چرا قبول کرلوں گا۔
قرآن کی رہنمائی ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی ذات کی نفی کی قیمت پر قرآن سے رہنمائی حاصل کریں ۔ جو قرآن کی رہنمائی کو ماننے کے لیے اس طرح تیار ہوں کہ قرآن اگر ان کی سوچ کی تصدیق نہ کرے تو وہ پکار اٹھیں کہ" میں غلطی پر تھا" ۔ مفاد یا ذاتی وقار کا سوال جن کے لیے سچائی کو مان لینے میں رکاوٹ نہ بنے ۔
سچائی کو پانے کے لیے اپنے آپ کو جھوٹا کر نا پڑتا ہے ۔ جو شخص اپنے جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا حوصلہ نہ کرے وہ اس دنیا میں سچائی کو پانے والا بھی نہیں بنتا۔