ایک مثال
موجودہ زمانے میں جو مسلم مصلحین اٹھے وہ زیادہ تر حالات کے رد عمل میں اٹھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں وہ رأفت اور ہمدردی بہت کم پائی جاتی ہے جو پیغمبر کے کلام میں کامل طور پر موجود ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال مشہور مسلم مصنف کی اس کتاب میں نظر آئی جو انھوں نے پردہ (حجاب) کے موضوع پر لکھی ہے۔ پردہ کی اہمیت پر کلام کرتے ہوئے انھوں نے اپنی کتاب کو ان الفاظ پرختم کیا ہے :
"میں کہتا ہوں کہ ہندستان کے احوال پر دے کی تخفیف کے نہیں، اور زیادہ اہتمام کے مقتضی ہیں۔ کیوں کہ آپ کے نظامِ معاشرت کی حفاظت کرنے والے دوستون گر چکے ہیں اور اب تمام دار و مدار صرف ایک ہی ستون پر ہے۔ تمدن اور معیشت اور سیاست کے مسائل آپ کو حل کرنے ہیں تو سر جوڑ کر بیٹھئے ، غور کیجئے۔ اسلامی حدود کے اندر اس کے حل کی دوسری صورتیں بھی نکل سکتی ہیں، مگر اس بچے کھچے ستون کو ، جو پہلے ہی کافی کمزور ہو چکا ہے اور زیادہ کمزور نہ بنائیے ۔ اس میں تخفیف کرنے سے پہلے آپ کو کم از کم اتنی قوت پیدا کرنی چاہیے کہ اگر کوئی مسلمان عورت بے نقاب ہو تو جہاں اس کو گھورنے کے لیے دو آنکھیں موجود ہوں ، وہیں اُن آنکھوں کو نکال لینے کے لیے پچاس ہاتھ بھی موجود ہوں" ۔
یہ واضح طور پر رد عمل کی نفسیات کے تحت نکلا ہوا کلام ہے ۔ کیوں کہ کسی بگڑی ہوئی معاشرت کو صالح معاشرت بنانے کا کام یقینی طور پر حکمت اور تدریج کے ساتھ کرنا ہوگا نہ یہ کہ ہم مصلحین کے اندر یہ مزاج بنائیں کہ جہاں ایک مرد کی آنکھ کسی عورت پر اٹھے تم فورا ًاس کی دونوں آنکھیں نکال کر اس کو ہمیشہ کے لیے اندھا کر دو۔
جو داعی مثبت نفسیات کے تحت اٹھے ، اس کا طریقہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس کا نمونہ ہے ۔ یہاں میں ایک مماثل واقعے کا حوالہ دیتا ہوں۔ حجۃ الوداع کے سلسلے میں جو واقعات حدیث کی کتابوں میں آئے ہیں ۔ ان میں سے ایک واقعہ حسبِ ذیل الفاظ میں منقول ہوا ہے :
عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، ( صحیح البخاري ،حدیث نمبر 1442وصحیح مسلم،حدیث نمبر 1218 )
حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کے موقع پر فضل بن عباس کو اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیا تھا۔ وہ خوبصورت بالوں والے اور پرکشش شخصیت والے آدمی تھے ۔ اس دوران قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ سے مسئلہ پوچھنے کے لیے آئی فضل بن عباس اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت فضل بن عباس کی طرف دیکھنے لگی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل بن عباس کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے ۔
اوپر موجودہ زمانے کے ایک مسلمان مصنف کا جو اقتباس نقل کیا گیا ہے وہ رد عمل کی نفسیات سے نکلے ہوئے کلام کی مثال ہے اور پیغمبر اسلام کا مذکورہ واقعہ مثبت نفسیات کےتحت ظاہر ہونے والے رویہ کی مثال ۔
اسلام کی خدمت کے لیے اٹھنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اسلام کی ابدی تعلیمات سے متاثر ہو کر اٹھے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس قسم کے مسائل سے متاثر ہو کر اٹھے جو موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو سیاسی اور تہذیبی شکست کے نتیجے میں پیش آئے ۔ اول الذکر آدمی کے اندر ایجابی نفسیات ہوگی، اور ثانی الذکر آدمی کے اندر سلبی نفسیات ۔ پہلا آدمی اس جذبےسے سرشار ہو گا کہ خدا کی جس آفاقی رحمت سے وہ آشنا ہوا ہے ، اس میں دوسروں کو حصہ دار بنائے ۔ اس کے برعکس دوسرا آدمی اس جذبے میں کھول رہا ہو گا کہ جن لوگوں نے اس کو نقصان اور شکست سے دوچار کیا ہے ، ان پر اپنی ساری طاقت کے ساتھ ٹوٹ پڑے ۔
بد قسمتی سے موجودہ زمانے کے مصلحین ملت دوسری قسم سے تعلق رکھتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے لوگوں کو" اندھا " بنانے کی مثالیں قائم کیں ۔ وہ لوگوں کو" بینا"بنانے کی مثال قائم نہ کر سکے ۔