ہارمان کر
دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو امریکہ کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ اس کے بعد اپریل 1945 میں امریکی فوجیں جاپان میں اتر گئیں۔ جنرل ڈگلس میک آرتھر (Douglas MacArthur) امریکہ کی طرف سے جاپان کے سپریم کمانڈر مقرر ہوئے ۔ جو 1951 تک وہاں رہے ۔ اس کے بعد جنرل میک آرتھر کی مرضی کے مطابق جاپان کا نیا دستور بنایا گیا جو 3 نومبر 1946 کو جاپانی اسمبلی میں منظور کر لیا گیا۔ اس دستور کے تحت شہنشاہ جاپان کی حیثیت گھٹا کر اس کو علامتی حکمراں (Symbol of the State) کا درجہ دے دیا گیا۔ دستور کی دفعہ 9 کے تحت جاپانی قوم نے عہد کیا کہ وہ کبھی بھی نہ زمینی ، بری یاہوائی فوج رکھے گی اور نہ کسی قسم کی اور کوئی جنگی تیاری کرے گی :
Land, sea, and air forces, as well as other war potential, will never be maintained (10/87).
یہ دستور بظاہر جاپان کی مستقل قومی موت کے ہم معنی تھا۔ مگر جاپان کے لیڈروں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس کو مکمل طور پر منظور کر لیا۔ کیوں کہ انھوں نے دیکھا کہ یہ دستور اگر چہ فوجی اور سیاسی اعتبار سے جاپان کے لیے اقدام کا راستہ بند کر رہا ہے ۔ مگر اس کے با وجود ان کے لیے سائنس اور صنعت میں اقدام کا راستہ پوری طرح کھلا ہوا ہے ۔ جاپان کی قوم جنگی اور سیاسی ٹکراؤ کے میدان سے واپس آکر علم اور صنعت کے میدان میں باقی ماندہ مواقع کو استعمال کرنے لگی ۔ یہاں تک کہ صرف 40 سال بعد مورخ کو جاپان کے بارے میں یہ الفاظ لکھنے پڑے –––– 1945 کی دوسری عالمی جنگ میں شکست کھایا ہوا جاپان ، دوبارہ جنگ کےکھنڈروں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دنیا کی ایک عظیم اقتصادی طاقت بن گیا :
Defeated in World War II (1945), Japan emerged from the ruins of war as one of the major economic powers in the world (V/519).
حال کو مان لینا آدمی کے لیے مستقبل کا راستہ کھولتا ہے ۔ جو لوگ حال کو نہ مانیں وہ مستقبل کے عظیم تر امکانات کو پانے سے بھی محروم رہیں گے۔