علامتی سرزمین
شارلی مان (814 – 742 ء) عباسی خلیفہ ہارون رشید کا ہم عصر تھا ۔ مغربی یورپ کے بڑے حصہ پر اس کی حکومت قائم تھی۔ ہارون رشید کے زمانۂ حکومت ( 809 – 786 ء) میں ایسا ہوا کہ خلیفہ اور فرینک شہنشاہ شارلی مان کے درمیان بعض سفارتی تبادلے ہوئے ۔ اس میں بظاہر شارلی مان کا مقصد یہ تھا کہ لاتینی اہل کلیسا کے لیے یروشلم میں کچھ مراعات حاصل کی جائیں :
It was in Harun's reign that certain diplomatic exchanges took place between the caliph and the Frankish emperor Charlemagne.
پروفیسر ہٹی نے بعض مسیحی مآخذ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ خلیفہ ٔبغداد کی طرف سے اس وقت شارلیمان کے لیے جو قیمتی تحفے بھیجے گئے، ان میں ایک پیچیدہ گھڑی (Intricate clock) بھی شامل تھی۔( ہسٹری آف دی عرب ، صفحہ 298)
12 سو سال پہلے مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ وہ یورپ کے بادشاہ کو وقت کا وہ اعلیٰ تحفہ بھیج سکتے تھے جو خود یورپ میں نا قابل حصول تھا۔ اور یورپ کا مسیحی بادشاہ فلسطین میں اپنےہم مذہبوں کے حق میں معمولی مراعات حاصل کرنے کے لیے مسلم خلیفہ سے رجوع کرتا تھا، آج یہ حال ہے کہ اسی فلسطین میں مسلمانوں کی خود اپنی جان و مال بھی محفوظ نہیں ۔
فلسطین کے قدیم وارثوں (یہود ) کے لیے یہ قانون تھا کہ اگر وہ خدا کے دین پر قائم رہیں تو انھیں فلسطین میں با عزت زندگی حاصل ہو ۔ اور اگر وہ خدا کے دین سے ہٹ جائیں تو خدا کافر قوموں کے ذریعہ انھیں فلسطین میں ذلیل کر دے (بنی اسرائیل 8) فلسطین اپنے قدیم وارثوں کے لیے خدا کے رحمت اور غضب دونوں کی علامت تھے ۔ اسی طرح فلسطین اپنے نئے وارثوں ا(مسلمانوں) کے لیے بھی خدا کے رحمت اور غضب کی علامت ہے ۔ مسلمان اگر خدا کے دین پر قائم ہوں تو وہ فلسطین میں عزت پائیں گے ۔ اور اگر وہ خدا کے دین پر قائم نہ ر ہیں تو اندیشہ ہے کہ فلسطین میں ان کا وہی انجام ہو جو اس کے سابق وارثوں کا اس با برکت زمین میں ہوا۔