ایک سفر

قرآن ہندی سوسائٹی آف انڈیا کی دعوت پر بھو پال کا سفر ہوا۔ 28  نومبر 1987  کی شام کو دہلی سےبھوپال پہنچا، اور 29  نومبر کی شام کو وہاں سے واپسی ہوئی ۔

28  نومبر کو جب میں انڈین ایر لائنز کی فلائٹ نمبر 419  میں داخل ہوا تو اچانک مجھے خیال آیا کہ ہندستان کے موجودہ وزیر اعظم مسٹر راجیو گاندھی سیاست میں آنے سے پہلے انڈین ایر لائنز کے ایک پائلٹ تھے ۔ وہ عام طور پر دہلی اور بھوپال کے درمیان جہاز چلاتے تھے ۔ ان کو ابھی اس قابل نہیں سمجھا گیا تھا کہ انڈین ایر لائنز کی زیادہ لمبی پرواز ان کے حوالے کی جائے یا وہ ایرانڈیا کی انٹر نیشنل پروازوں کی کمانڈ کریں ۔ مگر جمہوری سیاست کے قانون نے پورے ملک کا "جہاز" ان کے ہاتھ میں دے دیا ––––––– جمہوری نظام کا یہ معاملہ بھی کیسا عجیب ہے ۔

جہاز میں ایک صاحب داخل ہوئے ۔ ان کو رخصت کرنے کے لیے پولیس کے کئی آدمی آئے ہوئے تھے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی بڑے سرکاری افسر ہیں ۔ اتفاق سے ان کی سیٹ میرے پاس تھی ۔ وہ میری نشست سے ملی ہوئی نشست پر بیٹھ گئے ۔ جلد ہی بعد انھوں نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے ایک موٹی کتاب نکال کر پڑھنے لگے۔ میں نے ایک نظر ڈالی تو کتاب کانام یہ تھا :

The Secret Wars of the CIA

(سی آئی اے کی خفیہ جنگیں) میں نے سوچا کہ لوگ سی آئی اے کے خفیہ عمل کو جاننے کے شائق ہوتے ہیں مگر فرشتوں کے خفیہ عمل کو جاننے کا کسی کو شوق نہیں ۔ سی آئی اے کے خفیہ عمل کو جاننا آدمی کو صرف ایک تفریحی معلومات دیتا ہے۔ لیکن اگر آدمی اس عمل کو جان لے جو فرشتے خفیہ طور پر ہر ایک کے چاروں طرف کر رہے ہیں تو وہ تڑپ اٹھے اور اس کی ساری زندگی کچھ سے کچھ ہو جائے ۔

ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز بھوپال کی فضا میں پہنچا اور نیچے اترنا شروع ہوا۔ اب رات ہو چکی تھی۔ میں نے کھڑکی سے نیچے کی طرف دیکھا تو چاروں طرف بجلی کے قمقمے بے شمارتعداد میں جگ مگ کر رہے تھے ۔ بالکل وہی منظر تھا جو رات کے وقت کھلے آسمان میں ستاروں کی جگمگاہٹ سے پیدا ہوتا ہے ۔ تھوڑی دیر کے لیے ایسا معلوم ہوا گویا ہمارا جہاز تاروں بھرے آسمان میں اتر رہا ہو۔

 ایک لمحہ کے لیے یہ واقعہ میرے لیے زندگی کے وسیع تر سفر کی تمثیل بن گیا۔ ہم میں سے ہر شخص دنیا سے آخرت کی طرف سفر کر رہا ہے ۔ ہر ایک کا "جہاز "تیزی سے رواں ہے تاکہ وہ بالآخر" آسمان" میں اتر جائے۔ مگر لوگ صرف پہلے سفر کو جانتے ہیں ۔ دوسرے سفر کو جاننے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔

ایر انڈیا کے انفلائٹ میگزین نمسکار (جون 1987) میں ایک مضمون حسب ذیل عنوان کے ساتھ شامل ہے :

Bhopal: Old and New

سات صفحہ کے اس مضمون میں مسلم بھوپال کے بارے میں دلچسپ معلومات ہیں۔ اس کا صفحہ 45  سب سے زیادہ سبق آموز ہے ۔ اس صفحہ پر شہر بھوپال کا ایریل فوٹو دیا گیا ہے ۔ اس تصویر میں بھوپال کی تاج المساجد اس طرح نمایاں طور پر ابھری ہوئی نظر آتی ہے جیسے کہ چھوٹے چھوٹےپیڑوں کے باغ میں یوکلپٹس کے دو انچے درخت کھڑے ہوئے ہوں ۔

بھوپال ایر پورٹ پر اترا تو وہاں دوسرے صاحبان کے علاوہ حضرت قبلہ پیر سعید میاں مجددی مدظلہ العالی بھی موجود تھے۔ یہ دیکھ کر بہت شرمندگی ہوئی۔ کیوں کہ وہ میرے لیے اور تمام لوگوں کے لیے بزرگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واپسی کے وقت بھی وہ ازراہ ِعنایت ایر پورٹ پر دوبارہ تشریف لائے ۔ ان کی بزرگانہ حیثیت کی بنا پر میں زیادہ اصرار بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بھوپال میں میرا قیام بھی حضرت قبلہ مدظلہ العالی کی خانقاہ مجددیہ ہی پر رہا۔ دوران قیام کے تجربات اورفیوض کا کچھ تذکرہ اگلے صفحات میں درج ہے ۔

ایک مرتبہ میں نے ایک صاحب کا" سفر نامہ بھوپال "پڑھا۔ انھوں نے لکھا تھا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی پہلی نظر" دو بلند میناروں" پر پڑتی ہے جو اس شہر کی عظمت اور وقار کےاکلوتے گواہ ہیں۔ انھیں دیکھ کر ذہن میں اسلامی بھوپال کی تاریخ رقص کرنے لگتی ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تاج المساجد کے دو مینارے شہر کے سب سے بلند عمارتی نمونے ہیں۔ اپنی بلندی کے اعتبار سے وہ پورے شہر کی فضا پر چھائے ہوئے ہیں۔ مگر یہ مینارے بھوپال کے "اسلامی دور" میں نہیں بنے ۔ وہ آزادی کے بعد اس کے سیکولر دور میں ، یا زیادہ سخت الفاظ میں، اس کے" ہندو دور "میں بنائے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے ان بلند میناروں کا اصل پہلویہ نہیں ہے کہ وہ یہ یاد دلاتے ہیں کہ بھو پال کیا تھا، بلکہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ بھوپال کیا ہے۔یہ مینارے ماضی کی یادگار کے طور پر نہیں کھڑے ہوئے ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کو علامتی طور پر بتاتے ہیں کہ آج بھی اس ملک میں ان کے لیے یہ موقع کھلا ہوا ہے کہ وہ اپنی عظمت کا مینار بے روک ٹوک تعمیر کر سکیں ۔ وہ حال کے امکان کو بتاتے ہیں نہ کہ صرف گزرے ہوئے ماضی کو ۔

 ایک صاحب جو شاعر ہیں ، انھوں نے بھو پال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا : "شہر بھوپال کو یہ اعزاز میسر ہے کہ اس نے اپنے سینہ پر قیامت سے پہلے ایک قیامت جھیلی ہے۔ ایک زہر یلی قیامت جو ایک ہی رات میں ہزاروں بے گناہوں کی دردناک موت کا سبب بنی اور لاکھوں لوگوں کو زہر آلود کر گئی۔ قدیم روایتوں اور تہذیب کے اس شہر نے جدید سائنسی دورکے اس تحفہ کو کمال تحمل سے اپنے سینہ پر جھیلا اور کسی سے شکوہ تک نہیں کیا "۔

 مذکورہ صاحب کی مراد گیس کے اس حادثہ سے تھی جو بھوپال میں 3  دسمبر 1984  کو پیش آیا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ نے صحیح فرمایا۔ مگر اس کلام میں "اعزاز " اور "جھیلا " جیسے الفاظ میرےذوق کے مطابق نہیں ۔ اگر میں اس کو کہوں تو میں یوں کہنا پسند کروں گا کہ : اس شہر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے قیامت سے پہلے ایک قیامت کا تجربہ کیا ۔

28  نومبر کی شام کو ٹیگور ہال میں عمومی جلسہ تھا۔ علماء اور رہنماؤں کی بڑی تعداد جمع تھی۔وسیع ہال پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں تقریریں کی ۔ تاہم سب کی تقریروں کا موضوع قرآن اور اس کی تعلیمات تھا۔ مسٹر روی پر کاش ما نتھر ( سابق وائس چانسلربھوپال یو نیورسٹی )بھی اسٹیج پر موجود تھے ۔ مگر میں ان کی تقریر سن نہ سکا۔

 میری تقریر کا عنوان قرآن کا عالمی پیغام تھا ۔ میں نے قرآن اور سنت کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا۔ پورا ہال مکمل طور پر بھرا ہوا تھا۔ عوام اور خواص سب نے اس سے غیر معمولی اتفاق کا اظہار کیا ۔ جناب پر یم نارائن گپتا ایڈوکیٹ نے اس کو "آسمانی آواز" قرار دیتے ہوئے اپنی زبان میں کہا : آکاش وانی سے شبد بلیک بورڈ پر لکھے جارہے تھے اور ہم ان کو پڑھ رہے تھے ۔

 دوسرے دن 29  نومبر کی شام کو مجھے واپس آنا تھا ۔ منتظمین کی فرمائش پر دوبارہ میں نے دس منٹ کی ایک مختصر تقریر کی۔

ریاست کے ایک ہندو منسٹر (شیو بھانو سولنکی) نے اپنی تقریر میں کہا کہ اسلام میں بہت سی خوبیاں ہیں جن کا مجھ کو ذاتی تجربہ ہوا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اسلام سے خود میرے گھر کو ایک فائدہ ہوا ۔ میرے ایک لڑکے نے انڈسٹری لگانا چاہا۔ میرے پاس جتنی رقم تھی وہ میں نے ان کو دے دی ۔ مگر یہ رقم کم تھی۔ مزید سرمایہ فراہم کرنے کے لیے میں نے اپنے ایک مسلمان دوست سے کہا۔ وہ اس کے لیے تیار ہو گئے ۔ انھوں نے کہا کہ : ہمارے مذہب میں سود لینا حرام ہے۔ اس لیے میں رقم تو دوں گا ، مگر سود نہیں لوں گا۔ چنانچہ انھوں نے ہم کو بلا سودی قرض  دے دیا ۔ اگر میرا لڑکا بینک سے قرض لیتا تو اس کو کافی سود دینا پڑتا، مگر مسلمان کے ذریعہ اس کو سود کے بغیر قرض مل گیا ۔ اس طرح خود میرے گھر نے اسلام کے ایک فائدہ کا تجربہ کیا۔

اسی طرح انھوں نے کہا کہ میں مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھ کو یہ بہت اچھی چیز معلوم ہوتی ہے ۔ یہ بہترین یو گا ہے۔ اس سے آدمی کی عبادت بھی ہوتی ہے اور اس کا آسن بھی پورا ہو جاتا ہے۔ نماز سے وہ بھی ملتا ہے جو روح کو ملنا چاہیے اور وہ بھی ملتاہے جو سریر کو ملنا چاہیے ۔

مذکورہ ہندو منسٹر کی تقریر سن کر میں نے سوچا کہ اس ملک میں اگر صرف اتنا کیا جائے کہ ہند و مسلمان زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے قریب ہوں تو سارا مسئلہ اپنے آپ حل ہو جائے۔ وہ کتنے نادان لیڈر تھے جنھوں نے ہندومسلم مسئلہ کا حل دوری اور علاحدگی میں سوچا۔ حالانکہ وہ قربت اور تعلق میں زیادہ بہتر طور پر موجود تھا ۔

دہلی کے کرنل نرائن صاحب نے ایک مرتبہ گفتگو میں یہ بات کہی تھی کہ ضرورت ہے کہ ایک تنظیم "فرینڈز آف اسلام سوسائٹی "کے نام سے بنائی جائے۔ ہندستان کے اکثریتی فرقہ میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو بظا ہر اگرچہ الگ مذہب رکھتے ہیں مگر انہیں اسلام سے گہری دل چسپی ہے۔ ایسے تمام لوگ اس میں جڑ جائیں گے۔ اور اس طرح ایک بہت مفید اور دور رس کام کا آغاز ہو سکے گا۔

 مذکورہ منسٹر صاحب کی تقریر سن کر یہ خیال آیا کہ اس قسم کی تنظیم وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ " قرآن ہندی سوسائٹی آف انڈیا " میں ایک طرف اگر مولانا واجد الحسینی اور جناب فاروق ار گلی جیسے لوگ شریک ہیں تو اسی کے ساتھ اس میں شری رام سہائے جیسے لوگ بھی خلوص دل کے ساتھ شامل ہیں ۔ یہ سوسائٹی اگر "فرینڈ ز آف اسلام سوسائٹی " والے خواب کی تعبیر بن سکے تو یقینا ً یہ ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت ہوگی ۔

اس اجتماع میں ملک کے مختلف حصوں سے علماء اور دانشور آئے تھے ۔ سب نے راقم الحروف کے نقطہ ٔنظر سے اتفاق کیا۔ ایک مقرر (جناب جاوید حبیب صاحب ) نے نہایت کھل کر الرسالہ کے نقطۂ نظر کی تائید کی ۔

محمد یوسف بھوپالی ندوہ سے فارغ ہیں اور اب حال میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے امتیاز  کے ساتھ ایم اے کا امتحان پاس کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پہلے مجھے الرسالہ سے صرف جزئی دل چسپی تھی۔ مگر پچھلےدوسال سے میں نے الرسالہ کو اور آپ کی کتابوں کو غور کے ساتھ پڑھا۔ اب تو میں الرسالہ کا عاشق ہو گیا ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں الرسالہ ہی کا ایک مشن ہے جو خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر مسلمانوں کی رہنمائی کر رہا ہے ۔

 بھو پال کے ہندی اور اردو اخبارات نے 28  نومبر کی تقریر کی نمایاں رپورٹ شائع کی۔روزنامہ افکار (29 نومبر 1987) کے صفحہ اول پر اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی اس کا عنوان انھوں نے ان الفاظ میں قائم کیا تھا :

عہدِ جدید کی ترقیات کا سہرا حاملینِ قرآن کے سر ہے

 اصل تقریر کی رپورٹ تو بڑی حد تک صحیح تھی ، مگر اس کی مذکورہ سرخی تقریر کی اصل روح کےمطابق نہ تھی ۔ اگر میں خود اس کی سرخی قائم کرتا تو اس کے الفاظ یقیناً دوسرے ہوتے۔ کیوں کہ اس سرخی میں قومی فخر کی نفسیات جھلک رہی ہے ۔ جب کہ میں نے اپنی تقریر میں اصلاًقرآنی تعلیمات کی عظمت کو بیان کیا تھا نہ کہ کسی قوم کے شاندار کارناموں کو۔

افکار کے ہندی اڈیشن میں نسبتاً زیادہ بہتر رپورٹنگ نظر آئی۔

خانقاہ مجددیہ میں بہت قدیم سے یہ روایت ہے کہ ہر اتوار کو 12 بجے دن میں ایک مجلس ہوتی ہے۔ اس مجلس کو پہلے حضرت شاہ محمد یعقوب مجددی رحمۃ اللہ علیہ خطاب فرمایا کرتے تھے اب ان کے جانشین حضرت پیر سعید میاں صاحب قبلہ اس سے خطاب فرماتے ہیں ۔ 29  نومبر کو اتوار تھا ۔ چنانچہ حسب معمول لوگ کافی تعداد میں جمع ہو گئے ۔ حضرت پیر سعید میاں صاحب قبلہ کے حکم سے میں نے اس مجلس میں ایک تقریر کی۔ تقریر کا موضوع تعلق باللہ تھا۔ میں نے اپنی ایک گھنٹہ کی تقریر میں شکر اور عبادت کی حقیقت بیان کی ۔ اس کا اور دوسری تقریروں کا ٹیپ بھوپال کے بعض اصحاب کے پاس موجود ہے ۔

29 نومبر کو نماز ظہر کے بعد قدسیہ بیگم کی مسجد میں ایک نشست ہوئی ۔ اس میں الرسالہ کے قارئین اور شہر کے باشعور مسلمان شریک ہوئے ۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ  ––––– اس ملک میں مسلمانوں کا المیہ ، ایک لفظ میں یہ ہے کہ مسلمان پانے سے آغاز کرنا چاہتے ہیں ، جب کہ اس دنیا میں زندگی کا راز یہ ہے کہ کھونے سے آغاز کیا جائے۔

کھیت سے فصل لینے کے لیے پہلے اپنے دانہ کو زمین میں دفن کرنا پڑتا ہے ۔ دکان سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے پہلے اپنے سرمایہ کو دکان میں لگا دینا پڑتا ہے۔ ایک رہائشی مکان کا مالک بننے کے لیے پہلے یہ کرنا پڑتا ہے کہ اپنی اینٹوں کو بنیاد میں دفن کر دیا جائے ۔ یہ اس دنیا میں زندگی کا قانون ہے ۔ مگر مسلمان اس قانون الٰہی کو الٹی طرف سے چلانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کھوئے بغیر پائیں اور دیے بغیر حاصل کریں ، تو مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ مسلمان اپنی اس الٹی جد و جہد میں آزادی کے بعد چالیس سال ضائع کر چکےہیں ۔ اگر وہ مزید چالیس ہزار سال سال تک اپنی یہ الٹی کوشش جاری رکھیں تب بھی انھیں کچھ ملنے والانہیں۔ تقریر میں اس نقطہ ٴنظر کو حوالوں اور مثالوں سے واضح کیا گیا ۔

 بھوپال میں میرا قیام خانقاہِ مجددیہ میں تھا۔ حضرت مولانا پیر سعید میاں صاحب مجددی کے روحانی فیض اور با برکت کلمات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ حضرت مولانا نے حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب مجددی کے بہت سے نہایت قیمتی ملفوظات سنائے۔ ایک ملفوظ یہ تھا :

"یہ طبی اصول ہے کہ جب مرض شدید ہو جاتا ہے تو علاج پہلے ہلکی دوا سے شروع کیاجاتا ہے کیوں کہ مرض کی شدت کا اثر دل، دماغ اور اعضائے رئیسہ پر بھی ہوتا ہے اس لیے اگر علاج میں تیز دوا دیدی جائے تو دل، دماغ اور دیگر اعضائے رئیسہ پر ناقابل برداشت اثر مرتب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہذا علاج ہلکی دوا سے شروع کیا جاتا ہے پھر حسب ضرورت بتدریج دوا کو تیز کیا جاتا ہے ۔ یہی طبی اصول ہے" ۔

 اسی طرح اصلاح نفس میں بھی یہ اصول قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اگر فساد نفس شدید ہو اور طغیانی کی حد تک پہنچ گیا ہو تو طریقہ اصلاح نرم انداز میں شروع کرنا چاہیے۔ اس کا ثبوت قرآن مجید سے حاصل ہو رہا ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے کہ : اِذْهَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ،فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى (طٰہٰ :43,44)تم دونوں (موسیٰ و ہارون) فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکشی پر پہنچ گیا ہے ۔ پس اس سے نرم بات کہنا تا کہ وہ نصیحت قبول کرے یا اللہ سے ڈرے"۔

یہ اصلاح کی لازمی شرط ہے ۔ مگر اس پر عمل کرنے کے لیے صبر و برداشت کی بے پناہ  مقداردرکار ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے صبر کی متاع کھو دی ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ وقت کے" فراعنہ" کے مقابلے میں اس اصول کو استعمال نہیں کر پاتے۔

حضرت مولانا نے حضرت شاہ رؤف احمد صاحب (1253  - 1201  ھ ) کی فارسی کتاب "ارکان اسلام"  کا ایک صفحہ بتایا جو کہ حسبِ ذیل تھا :

بزرگے فرموده است که چهار هزار شتر کتاب خواندیم و از آنجمله چهار سخن اختیار کردیم۔ یکے آنکہ اے نفس آنچه تراحق تعالٰی منع کرده است از آں باز آ و الّا از ملک او بدرشو ۔ دوم آنکه اے نفس اگر طاعت او میکنی بکن والّا روزیٰ او مخور ۔ سوم آنکہ اے نفس بر قسمت خویش راضی باش و الّا خدائے دیگر طلب کن تا ترا بیشتر دہد ۔ چهارم آنکہ اے نفس اگر قصد ِگناه داری اول جائے بہمر ساں کہ تراحق تعالیٰ نہ بیند و الّا مکن ۔

 ایک بزرگ نے فرمایا ہے کہ چار ہزار اونٹ کے بوجھ کے برابر میں نے کتابیں پڑھیں اور ان سے میں نے چار باتیں حاصل کیں۔ ایک یہ کہ اے انسان، اللہ نے تجھ کو جس چیز سے منع کر دیا ہےاس کو نہ کر ، ورنہ تو اس کے ملک سے باہر چلا جا۔ دوسرے یہ کہ اے انسان ، اگر تو اللہ کی اطاعت کرتا ہے تو کر، ورنہ اس کا رزق نہ کھا ۔ تیسرے یہ کہ اے انسان ، اپنی قسمت پر راضی ہو جا ، ورنہ اپنے لیے دوسرا خدا حاصل کرتا کہ وہ تجھ کو زیادہ دے ۔ چوتھے یہ کہ اے انسان ، اگر تو گناہ کرنا چاہتاہے تو ایسی جگہ تلاش کر جہاں خدا تجھ کو نہ دیکھے ورنہ گناہ نہ کر ۔

 انسان اگر سنجیدگی کے ساتھ سوچے تو وہ خدا کی اطاعت کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں ۔

 جلسہ میں شرکت کے بعد میں اپنی قیام گاہ (خانقاہ مجددیہ ) واپس آچکا تھا کہ اچانک ایک صاحب آئے۔ بظاہر وہ بالکل سیدھے سادے قسم کے معلوم ہوتے تھے ۔ انھوں نے مجھے ایک بند کاغذ دیا اور اس کے بعد فوراً واپس چلے گئے ۔ انھوں نے نہ مزید کچھ کہا اور نہ وہاں ٹھہرے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد میں نے کاغذ کو کھولا تو اس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے: "حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی طرف سے سلام قبول ہو" ۔

 اوپر میں نے جو کچھ نقل کیا ، اس سے زیادہ مجھے اس کے بارے میں اور کچھ نہیں معلوم ہے۔

ایک صاحب ملے ۔ انھوں نے اپنا تعارف اس طرح کرایا کہ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں اس کے بعد انھوں نے عام طرز کی لمبی چوڑی باتیں شروع کر دیں اور دیر تک بولتے رہے۔ میں نے کہا : آپ الرسالہ کے قاری نہیں ہیں۔ آپ نے ابھی وہ چیز یں پڑھی ہیں جو آدمی کو بولنے والا بناتی ہیں۔ الرسالہ کا قاری تو وہ ہے جس پر چپ لگ جائے ، جو الرسالہ پڑھنے کے بعد یہ محسوس کرے کہ اس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے ، اور اب اس کے پاس بولنے کے لیےکچھ نہیں ۔

 ایک مجلس میں اسلامی دعوت پر گفتگو تھی۔ میں نے کہا کہ اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم یہ جانیں کہ ہمارا تعلق دوسری قوموں سے داعی اور مدعو کا تعلق ہے ۔ نہ کہ حریف اور رقیب کا تعلق ۔ ایک صاحب نے کہا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں ۔ آج کل تو سبھی لوگ دعوت اور داعی اور مدعو کی بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ دعوت کسی تقریری مظاہرہ کا نام نہیں ۔ دعوت ایک سنجیدہ ترین عمل ہے۔ دعوت کی اصل بندوں کی خیر خواہی ہے  –––––––  مدعو کو محبوب بنانا پڑتا ہے۔اس کے بعد ہی دعوت کے عمل کا آغاز ہوتا ہے ۔

 یہاں جن صاحبان سے ملاقات ہوئی ، ان میں سے ایک مسٹر راج تیواری ہیں ۔ وہ پابندی سے الرسالہ انگریزی پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ نے تو مجھ کو بدل کر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ مجھ کو آپ ایک آدمی نہ سمجھیے ۔ میرے جیسے بے شمار لوگ ہیں جو کسی سچے پیغام کے منتظر ہیں۔ بس آپ سیٹی بجا دیجئے ، اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ یہاں مسافروں سے لدی ہوئی ایک پوری گاڑی چل پڑی ہے ۔

ایک مجلس میں میں نے کہا کہ کسی بات کو واقعی طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پیشگی طور پر کچھ باتوں کو جانتا ہو۔ مثلاً اگر میں کہوں کہ "میں دہلی سے آیا ہوں " تو آپ کو پہلے سے اس کا علم ہونا چاہیے کہ" دہلی" کیا ہے۔ اگر آپ "دہلی " سے واقف نہ ہوں تو آپ میرے جملے کوٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکتے ۔

بھوپال کا سفر مختصر ہونے کے باوجود خدا کے فضل سے کافی مفید رہا اور اس کا کریڈٹ تمام تر ڈاکٹر حمید اللہ ندوی کو جاتا ہے ۔ وہ دس برس سے پابندی کے ساتھ الرسالہ کو پھیلا رہے ہیں۔ اور انھوں نے تقریباً پورے بھوپال کے لوگوں کو الرسالہ کے مشن سے متعارف کرا دیا ہے۔ چنانچہ میں بھو پال پہنچا تو وہاں وہ ذہنی پس منظر پوری طرح موجود تھا جو الرسالہ والی بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ اس چیز نے بھوپال کے سفر کو توقع سے زیادہ کامیاب بنا دیا ۔ فللہ الحمد۔

ایک صاحب نے اخبار ریڈینس (29  نومبر 1987) پیش کیا اور کہا کہ دیکھئے خود مسلمان ہی اسلام کو مٹانے پر تلا ہوا ہے، پھر ہم غیروں سے کیا امید کر سکتے ہیں۔ اس اخبار کے ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ جموں اور کشمیر کے مسلم وزیر اعلیٰ اسلام دشمن ہیں۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ کشمیر میں اسلام پسند جماعت نے ایک سو سے زیادہ اسلامی اسکول قائم کر رکھے ہیں اور ڈاکٹر فاروق عبد اللہ ان کو طاقت سے بند کر دینا چاہتے ہیں :

The Chief Minister has received his anti-Islamic legacy from his late father who struck a deadly blow to the Islamic education in 1975.

میں نے کہا کہ یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ اندازِ فکر ہے۔ اور اسی غیر حقیقت پسندانہ انداز فکر نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو برباد کر رکھا ہے۔

عربی کا ایک مقولہ ہے : تُعْرَفُ الْأَشْيَاء بِأَضْدَادِهَا (چیز یں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ) مذکورہ واقعہ میں بھی اس کا ایک ضد پایا جاتا ہے ۔ آپ اس کے ضد کو ملا کر دیکھیے، اس کے بعد ہی آپ اس معاملہ میں صحیح رائے قائم کر سکتے ہیں۔ ایک طرف یہ واقعہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ اسلام پسند جماعت کے اسلامی اسکولوں کو بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے سامنے یہ واقعہ آتا ہے کہ یہی ڈاکٹر فاروق عبد اللہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ جاتے ہیں اور وہاں وہ یونیورسٹی کے لیے پانچ لاکھ روپیہ سالانہ کے عطیہ کا اعلان کرتے ہیں۔ تا کہ غریب مسلم طلبہ کو مدد دے کر انھیں تعلیم میں آگے بڑھایا جاسکے (اخبار نو5  نومبر 1987)

 اب سوچنے کی بات ہے کہ ایک ہی شخص کیوں ایسا کرتا ہے کہ ایک طرف وہ کشمیر کی "اسلامی درسگاہ" کو کچلنا چاہتا ہے اور دوسری طرف و ہی شخص علی گڑھ کی" اسلامی درسگاہ" کی ترقی کے لیے گراں قدر مستقل رقم پیش کر رہا ہے ۔ اس کا راز یہ ہے کہ علی گڑھ کی اسلامی تعلیم گاہ اس کی سیاسی حریف نہیں۔ جب کہ کشمیر کی اسلامی تعلیم گاہ ریاست کے الیکشن 1975  اور اس کے بعد موجودہ الیکشن (مارچ 1987) میں اس کی سیاسی مخالفت کا اڈا بنی رہی ۔

یہ عین وہی چیز ہے جس کی روایت سب سے پہلے اس ملک میں اس شخص نے قائم کی جس کو آپ سب لوگ "عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ" کہتے ہیں۔ اور نگ زیب عالم گیر نے کچھ عباد ت  خانوں کو جاگیریں دیں اور دوسرے عباد ت  خانے ایسے بھی ہیں جن کو اس نے ڈھا دیا ۔ اس فرق کا سبب یہی تھا کہ جو عبادت خانہ صرف عبادت خانہ تھا۔ اس کے ساتھ اورنگ زیب عالمگیر نے تعاون کا معاملہ کیا۔ اور جو عبادت  خانہ اس کی سیاسی مخالفت کا اڈہ بنا ہوا تھا اس کو اس نے منہدم کرا دیا۔

اس دنیا میں کوئی بھی شخص اپنے حریفوں کو نہیں بخشا۔ خواہ وہ سیکولر قسم کے لیڈر ہوں یا مقدس اسلامی رہنما۔ جو لوگ اس دنیا میں کوئی واقعی کام کرنا چاہتے ہیں ، ان پر لازم ہے کہ سب سے پہلے زندگی کی اس حقیقت کو جانیں، اس کے بعد وہ میدان عمل میں اپنا قدم رکھیں ۔

 جناب سلیم شمسی صاحب (پیدائش 1942) نے بتایا کہ جس زمانے میں جن سنگھ کو ختم کر کے بھارتیہ جنتا پارٹی بنائی گئی تھی اٹل بہاری باجپئی مسلم  موافق تقریریں کرنے لگے تھے۔ سلیم شمسی صاحب نے ان سے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ پہلے تو آپ مسلم مخالف تقریریں کرتے تھے ۔ اب آپ کا لہجہ بدل گیا ہے ۔ شاید آپ نے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا ہے ۔ اٹل بہاری با جپئی نے اس کو سن کر کہا :

"میاں ، آدمی نہیں بولتا، پلیٹ فارم بولتا ہے"۔

اٹل بہاری با جپئی کے اس جواب پر ایک تاثر یہ ہو سکتا ہے کہ یہ بے اصول سیاست یا زیادہ سخت لفظوں میں منافقت ہے ۔ مگر میں نے اس کو سنا تو میرے دل نے کہا کہ ہم کو انسان کی اس کمزوری کو مانتے ہوئے یہ کرنا چاہیے کہ ایسا "پلیٹ فارم " وجود میں لائیں جہاں آدمی ہمارے موافق بولنےپر مجبور ہو جائے ۔

اس بات کی ایک دلچسپ مثال اسی جلسہ میں شیعہ رہنما جناب پر نس انجم قدر صاحب نے پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ ایک مرتبہ ہمارے شہر میں ایک مشہور سنیّ عالم آئے۔ ہم نے ان کو اپنے امام باڑہ میں بلاکر استقبالیہ دیا اور ان سے تقریر کرائی ۔ وہ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو انھوں نے اس حدیث کو اپنی تقریر کا موضوع بنایا : تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَاب اللهِ وَعِترتی ۔ اور اہل بیت کی فضیلت پر شاندار تقریر کی۔ اس سنّی عالم کے شہر والے شیعہ حضرات کو معلوم ہواتو انھوں نے پرنس انجم قدر صاحب سے کہا کہ یہ سنی عالم ہمارے یہاں تو دوسرے قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ پرنس انجم قدر نے جواب دیا :تم ان کے ساتھ جیسا کرتے ہو ویسا وہ تمہارے ساتھ کرتے ہیں، ہم نے ان کے ساتھ جیسا کیا ویسا انھوں نے ہمارے ساتھ کیا( واضح ہو کہ سنی علماء کے نزدیک زیادہ صحیح اور مستند روایت وہ ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْن لَنْ تَضِلُّوامَا تَمسکتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَةَ رَسُولِهِ)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom