تشخیص کا مسئلہ
مسلمان موجودہ زمانہ میں احساس محرومی کا شکار ہوئے۔ وہ ایسے حالات سے دوچار ہوئے جس نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی چیز ان سے کھوئی گئی ہے ۔ اس موقع پر اصل سوال یہ تھا کہ وہ کیا چیز ہے جو مسلمانوں سے کھوئی گئی ہے ، کیوں کہ آدمی جس چیز کے بارے میں احساس محرومی سے دوچار ہو اسی کو وہ پانے کی کوشش کرے گا۔ اسی کے بارے میں وہ اپنا سارا زور لگا دے گا۔
اس موقع پر ایک سنگین حادثہ پیش آیا۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کے تمام لیڈروں نے انہیں یہ احساس دلایا کہ ان سے جو چیز کھوئی گئی ہے وہ حکومت ہے۔ مسلمانوں کے درمیان جو شاعر اور خطیب اور انشاء پرداز پیدا ہوئے، اور جو نام نہاد مفکرین ان کے درمیان اٹھے ان سب نے اپنے اپنے انداز سے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ تم حکومت سے محروم ہو گئے ہو اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس نے تم کو موجودہ زمانےمیں حقیر اور کمزور کر دیا ہے ۔
اس تشخیص کے قدرتی نتیجےکے طور پر یہ ہوا کہ تمام مسلمان نہ صرف ہندستان بلکہ ساری دنیا میں حکومت واقتدار کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑے ۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے احیاءِ ملت اور تجدید ِاسلام کے نام سے جو کوششیں کی ہیں وہ تقریبا ًسب کی سب اسی ایک خانےمیں جاتی ہیں ۔ مگر ان کوششوں کی صد فی صد نا کامی بتاتی ہے کہ وہ تشخیص صد فی صد غلط تھی جس کی بنیاد پر یہ تحریکیں اٹھائی گئیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے جو چیز کھوئی ہے وہ تعلق باللہ ہے۔اللہ پر زندہ عقیدہ، اللہ کی سچی پرستش، اللہ کے آگے مسئولیت کی تڑپ ، اللہ کے لیے جینے اور مرنے کا احساس ، یہ ہے وہ اصل چیز جو موجودہ زمانے کے مسلمانوں سے کھوئی گئی ہے یہ محرومی اتنی عام ہے کہ اصاغر اور اکابر، حتیٰ کہ بے ریش اور باریش دونوں قسم کے مسلمان اس سے خالی ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی یہی اصل کمی ہے جس نے ان کے اندر دوسری تمام کمیاں پیدا کی ہیں۔ جب تک ان کی یہ کمی دور نہ ہو وہ اپنی اسی موجودہ حالت میں پڑے رہیں گے۔ کسی بھی دوسری چیز کا حصول ان کے مرض کا علاج نہیں بن سکتا۔