تخلیق کا مقصد
یہ دنیا جس میں ہم ہیں ، اس کو اگر با مقصد دنیا سمجھا جائے تو اس سے آدمی کے اندر یہ احساس ابھرے گا کہ وہ اپنے آپ کو اس کے مطابق بنائے۔ اسی کا نام ذمہ دارانہ زندگی ہے ۔ اور ذمہ دارانہ زندگی کا احساس ہی تمام انسانی خوبیوں کا اصل محرک ہے۔
اس کے برعکس اگر موجودہ دنیا کو بے مقصد دنیا فرض کر لیا جائے تو اس کے بعد یہ احساس بھی مٹ جاتا ہے کہ ہم سے اوپر کوئی مقصد ہے ، اور ہم کو اسی مقصد سے مطابقت کر کے اس دنیا میں رہنا ہے۔ اس کے بعد قدرتی طور پر بے قید آزادی کا ذہن وجود میں آتا ہے ، اور بے قیدآزادی کا مزاج بلاشبہ تمام خرابیوں کی اصل جڑ ہے ۔
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں باتوں میں سے کون سی بات ہے جو انسانی فطرت سےزیادہ ہم آہنگ ہے۔ اور جو کائنات کے مجموعی نظام کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ اس حیثیت سے جب غور کیا جائے تو بلا تاخیریہ ماننا پڑتا ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک با مقصد منصوبے کے تحت ہوئی ہے۔ بے مقصدیت کا نظریہ کائنات کے مجموعی نظام میں درست نہیں بیٹھتا،اس لیے وہ صحیح بھی نہیں ہو سکتا ۔
انسانی فطرت چاہتی ہے کہ اچھے عمل کا اچھا انجام ہو اور برے عمل کا برا انجام ۔ اگر کائنات کو با مقصد نہ مانا جائے تو انسانی فطرت یہاں بالکل بے جواب ہو کر رہ جائے گی۔ کائنات کو بے مقصد قرار دینا گو یا انسان کو ایک ایسی دنیا رہنے کے لیے دینا ہے جو اس کے گہرےتقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی ۔
اسی طرح کائنات کا وسیع تر نظام حد درجہ با معنی انداز میں قائم ہے۔ انسان سورج کو خداکہتا ہے مگر سورج ڈوب کر اعلان کرتا ہے کہ وہ خدا نہیں ہے ۔ انسان تکبر کرتا ہے مگر اس پر موت آکر اس کے اس قسم کے تمام دعووں کو باطل کر دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کسی بے مقصد تو جیہہ کو قبول نہیں کرتی۔ اس دنیا میں وہی نظریہ صحیح نظریہ ہے جو انسان کو مقصدیت کا احساس عطا کر ہے ۔