سبق آموز

31 اگست 1987  کی صبح کو تمام اخبارات یہ خبر لے کر آئے کہ ہر جندرسنگھ جندا اور ستنام سنگھ باوا کو دہلی میں گرفتار کر لیا گیا۔ جندا پنجاب کے انتہائی خطرناک دہشت پسندوں میں سے تھا۔ وہ خالصتان کمانڈو فورس میں "جنرل "کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس نے جنرل ویدیہ ،للت ماکن ایم پی ، ارجن داس کو نسلر، کئی پولس افسر اور بیسیوں دوسرے افراد کو قتل کیا تھا۔ پنجاب نیشنل بنک لدھیانہ میں پانچ کرور روپیہ سے زیادہ کی ڈکیتی میں اسی کا ہاتھ تھا۔ وغیرہ۔ گرفتاری کے وقت اس کے پاس سے نہایت خطرناک ہتھیار، پانچ لاکھ روپے نقد ، بہت سا سونا اور دوسری چیزیں برآمد ہوئیں ۔ اس گرفتاری کے ذیل میں بہت سی تفصیلات اخباروں میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک جزء یہ تھا کہ :

The police found in Jinda's pocket some powder which they suspect is cyanide. Jagdish Singh had swallowed cyanide when he was taken to the police post at Paharganj. If Jinda had died, it would have robbed the police of a chance to interrogate him and obtain vital information (p.3).

پولس نے نہایت صحیح وقت پر اس کو پکڑ لیا۔ کیوں کہ یہاں ایک اور خطرہ تھا۔ جندا خود کشی کر سکتا تھا جیسا کہ جگدیش سنگھ نریلا والا نے دو سال پہلے کیا تھا۔ پولیس کو جندا کی جیب میں کچھ سفوف ملا ہے جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ وہ سائنائڈ زہر ہے ۔ جگدیش سنگھ نے اس وقت سائنائڈ کھا لیا تھا جب کہ وہ پہاڑ گنج کی پولیس چوکی کی طرف لے جایا جار ہا تھا۔ اگر جندا مرجا تا تو پولیس کے لیے یہ موقع ختم ہو جا تا کہ وہ اس سے سوالات کرے اور اہم معلومات حاصل کرے۔(انڈین اکسپریس یکم ستمبر 1987)

دہشت پسند تنظیم کا کوئی شخص اگر زندہ حالت میں پولیس کے قبضہ میں چلا جائے تو پولیس اس پر ناقابل برداشت سختیاں کر کے اس سے تمام راز اگلو اسکتی ہے ، اور پھر پوری تنظیم کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ ایسی حالت میں دہشت پسند فوراً خود کشی کر لیتا ہے ۔ وہ اپنا وجو د مٹا دیتا ہے تاکہ اپنی تنظیم کے وجود کو بچا سکے۔

یہی قربانی جماعتوں کی زندگی کی ضمانت ہے ، خواہ وہ تخریبی جماعت ہو یا تعمیری جماعت۔ موجودہ دنیا میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ فرد کے تقاضے اور جماعت کے تقاضے میں ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے ۔ ایسی حالت میں فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے کو "ہلاک"  کرلے تا کہ جماعت کو زندگی حاصل ہو سکے۔ تاہم جسمانی قتل اس قربانی کی سب سے چھوٹی صورت ہے ۔ اس راہ کی زیادہ بڑی قربانی وہ ہے جس کو حسیاتی قتل یا نفسیاتی ہلاکت کہا جا سکتا ہے۔ پہلا اگر جہاد اصغر ہے تو دوسراجہاد اکبر ۔

اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ فرد کو اپنی حق تلفی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی انا کو چوٹ لگتی ہے۔ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اس کے اندر منفی جذبات کو جگا دیتے ہیں۔وہ اتحاد کے بجائے اختلاف کی باتیں سوچنے لگتا ہے ۔

ایسے تمام مواقع پر اس کو وہی کام کرنا ہے جو دہشت پسند تنظیم کا ایک ممبر کرتا ہے ۔ اس فرق کے ساتھ کہ دہشت پسند تنظیم کا ممبر اپنے جسم کو قتل کرتا ہے ، مگر تعمیری اجتماعیت کے رکن کو ایسے موقع پر اپنے احساس کو قتل کرنا ہے ۔ اس کو اپنی منفی نفسیات کو پوٹاشیم سائنائڈ کی خوراک کھلانا ہے ۔

جس اجتماعیت کو ایسے افراد مل جائیں ، اس کو دنیا کی کوئی رکاوٹ کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی ۔

اجتماعیت کو زندگی دینے کے لیے انفرادی نفسیات کا یہ قتل ہر حال میں ضروری ہے۔ حتٰی کہ پیغمبر کے زمانے کی اجتماعیت بھی اس ناگزیر قربانی کے بغیرقائم  نہیں ہو سکی ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ کے مقدس ساتھیوں نے بار بار اس قسم کی نفسیاتی خودکشی کی قربانی دی۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ عرب میں وہ طاقت ور اجتماعی ہیئت ظہور میں آئی جو سارے عالم کی قسمت بدل دے ، اور انسان کو ایک نئے تاریخی دور میں داخل کر دے۔ فرد کی ہلاکت پر اجتماع کو زندگی ملتی ہے، اجتماع کی زندگی کا اس کے سواکوئی اور راستہ نہیں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom