آسان حل
ایک قائد فرقہ وارانہ فساد کے موضوع پر بول رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں جو فسادات کے خلاف تحریک چلا رہا ہوں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مجھے ذاتی طور پر کوئی خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ میرے لیے دولت مند عرب ملکوں میں قیمتی پیش کشیں موجود ہیں اور میں وہاں جا کر آرام اور عافیت کی زندگی گزار سکتا ہوں ۔
یہ آدھی سچائی ہے ۔ کسی مسلمان کے لیے عرب ملکوں میں قیمتی جگہ صرف اس شرط پر ہے کہ وہ وہاں کے نظام سے مکمل موافقت کرے۔ اگر وہ وہاں جاکر اس قسم کی مخالفِ نظام تقریر کرنے لگے جیسی تقریریں ہمارے قائدین یہاں کرتے رہتے ہیں تو عرب ملکوں میں اس کی کم سے کم سزا یہ ہوگی کہ اس کوفوراً وہاں سے "ڈی پورٹ" کر دیا جائے۔
موجودہ زمانےمیں اصاغر اور اکابر کی بہت بڑی تعداد عرب ملکوں سے قیمتی فوائد حاصل کر رہی ہے۔ کچھ لوگ وہاں مستقل طور پر آباد ہیں۔ کچھ لوگ تقریبات اور کانفرنسوں میں شریک ہو کر اپنی شہرت اور اعزاز میں اضافہ کر رہے ہیں۔ مگر ان فوائد کا حصول صرف اس قیمت پر ممکن ہوا ہے کہ ہر ایک وہاں کے سیاسی نظام کے بارےمیں مکمل طور پر خاموش رہتا ہے۔ وہ وہاں کی ان خرابیوں کےخلاف کبھی نہیں بولتا جن کے خلاف بولنا حکومتی نظام سے ٹکرانے کے ہم معنی ہو۔ حتٰی کہ اگر وہاں لاؤڈ اسپیکر کے عمومی استعمال پر پابندی ہو تو وہ یہ مطالبہ لے کر نہیں کھڑے ہوتے کہ ہم کو لاؤڈاسپیکرکے عام استعمال کی اجازت دی جائے ۔ یہی وہ واحد قیمت ہے جس کی ادائیگی نے انھیں یہ موقع دیا ہےکہ وہ عرب ملکوں کے قیمتی فوائد اپنے لیے سمیٹ سکیں ۔
ایسی حالت میں کہنے والوں کو یہ کہنا چاہیے کہ جس طرح عرب ملکوں میں جا کر ہم لوگ وہاں کے نظام سے موافقت کرکے رہتے ہیں اسی طرح ہم کو یہاں بھی نظام سے موافقت کرکے رہنا چاہیے۔ اس کے بعد ہم کو یہاں بھی اسی طرح آرام اور عافیت کی زندگی مل جائے گی جس طرح ہم کو عرب ملکوں میں آرام اور عافیت کی زندگی ملی ہوئی ہے ۔ یہ صرف قیمت کی ادائیگی کا مسئلہ ہے نہ کہ ایک ملک اور دوسرے ملک میں فرق کا۔