شخصیتِ انسانی
قرآن کی ایک آیت وہ ہے جس کو آیتِ امانت کہا جاتا ہے۔ یہاں اس سلسلے کی دو آیتوں کا ترجمہ دیا جاتا ہے: ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے۔ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (الاحزاب-73:72)
اس آیت میں انسان کی خصوصی تخلیق کے معاملے کو بتایا گیا ہے۔ امانت کا لفظی مطلب ٹرسٹ(trust) ہے۔اس کائنات میں اللہ کامل معنوں میں اختیار رکھتا ہے، اختیار میں کوئی اللہ کا شریک نہیں۔ اس اختیار کا ایک بہت چھوٹا حصہ انسان کو خصوصی طور پر دیا گیا ہے۔ انسان کو یہ اختیار بطور حق نہیں دیا گیا ہے، بلکہ وہ انسان کو بطور ذمہ داری دیا گیا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اختیار کے باوجود اپنے آپ کو بے اختیار بنا لے، وہ خود عائد کردہ پابندی (self-imposed discipline) کا نمونہ بنے۔یہی اس دنیا میں انسان کا ٹیسٹ ہے، اور اسی ٹیسٹ میں پورا اترنے پر انسان کے لیے جنت مقدر کی گئی ہے۔
امانت کا یہ معاملہ ایک بے حد نازک معاملہ تھا۔ اسی لیے زمین و آسمان اس کا حامل بننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ انھوں نے زبان حال سے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کردیا۔ اس کےبعد یہ ذمہ داری خالق کی طرف سے انسان کو عطا ہوئی۔ تاہم یہ ایک بے حد نازک ذمہ داری تھی، کیوں کہ عملاً یہ بے حد مشکل تھا کہ انسان کامل معنوں میں اس ذمہ داری پر پورا اترے۔
خالق نے اس معاملے میں رعایت کا طریقہ اختیار کیا۔ اس نے یہ فیصلہ فرمایا کہ جو انسان توبہ کا ثبوت دے اس کے ساتھ خالق خصوصی رحمت کا معاملہ فرمائے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیث قدسی میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:إن رحمتی غلبت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194)
مذکورہ آیت بتاتی ہے کہ انسان اگر توبہ کا ثبوت دے تو خالق کے نزدیک وہ قابل معافی قرار پائے گا۔ توبہ کا لفظی مطلب ہے لوٹنا۔ یعنی غلطی کے بعد شدید ندامت کا احساس ہونا۔اپنی غلطی کا نہایت شدید انداز میں اعتراف کرنا۔ غلطی کرنے کے بعد شدید انداز میں اصلاح کا طالب بننا۔ اگر انسان کے اندر یہ شدید اعتراف پیدا ہوجائے تو وہ خالق کے سامنے بندے کی طرف سے ایک قابل قبول عذر بن جائے گا۔ خالق اپنی رحمت کے ساتھ بندے کی طرف دوبارہ لوٹ آئے گا۔ یہی مطلب ہے اس بات کا کہ — اللہ کے غضب کے اوپر اس کی رحمت غالب ہے۔
توبہ در اصل ندامت (repentance) کا دوسرا نام ہے۔ غلطی کرنے کے بعد جب انسان کے اندر شدید ندامت پیدا ہوتو وہ اس کی پوری شخصیت کے لیے ایک دھماکہ کے ہم معنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد آدمی کا پورا وجود ہل جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر اپنی اصلاح کا جذبہ ہمالیائی اسپرٹ کے ساتھ جاگ اٹھتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نیا عمل (process) جاری ہوتا ہے، جو اس کی پوری شخصیت کو ایک نئی شخصیت بنا دیتا ہے۔
اس قسم کی توبہ اپنے آپ میں ایک اعلیٰ درجے کا عمل ہے۔ ایسی توبہ انسان کو پہلے سے بھی زیادہ قابل قدر بنا دیتی ہے۔ اس کے بعد انسا ن کی سوچ، اس کا بولنا، اور اس کا کردار سب ایک نئے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرتی ہے۔ اس کے بعد انسان کے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب اس کا ذکر اعلیٰ ذکر بن جاتا ہے۔ اب اس کی دعاء اعلیٰ دعا ءبن جاتی ہے۔ اب اس کا شکر اعلیٰ شکر بن جاتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک تخلیقی شخصیت (creative personality) جاگتی ہے۔ اس قسم کی توبہ جب کسی انسان کو حاصل ہوجائے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ رب العالمین کے لیے قابل قبول انسان بن جاتا ہے۔