نا انصافی کا مسئلہ
تمام مصلحین ہمیشہ ایک کام کرتے رہے ہیں۔ اور وہ ہے نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانا۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھیے تو ان کے احتجاج (protest) کا کبھی کوئی مثبت فائدہ نہیں نکلا۔ احتجاج کی کثرت کے باوجود نا انصافی کے واقعات میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ بلکہ مصر کے حالیہ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ نا انصافی کے خلاف پروٹسٹ کے طریقے نے صرف ناانصافی میں مزید اضافہ کیا۔
اصل یہ ہے کہ ’’ناانصافی‘‘ فطرت کے نظام کا ایک حصہ ہے۔ ناانصافی ہمیشہ آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کوئی طاقت انسانی آزادی کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔ اس لیے نانصافی کا امکان بھی کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ اس معاملے میں دانش مندی کا طریقہ یہ ہے کہ خود اپنے اندر اتنی ذہنی بیداری (intellectual awakening) پیدا کی جائے کہ آپ ناانصافی کرنے والوں کی ناانصافی کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر قدیم مکہ کے سرداروں نے رسول اور اصحابِ رسول کو عمرہ کے لیے مکہ جانے سے روکا۔ یہ صریح طور پر ناانصافی کا ایک کیس تھا۔ لیکن پیغمبرِ اسلام نے اس ناانصافی پر احتجاج کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ حدیبیہ سے واپس آکر خاموش منصوبہ بندی کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسال کے اندر تاریخ بدل گئی۔ اور حج اور عمرہ کا راستہ ابدی طور پر تمام امت کے لیے کھل گیا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ پروٹسٹ کا طریقہ ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹو (counter-productive) ثابت ہوتا ہے۔یعنی برعکس نتیجہ پیدا کرنے والا۔ وہ مسئلے کو صرف بڑھاتا ہے، جب کہ غیر احتجاجی طریقہ مسئلہ کو ختم کرنے والا ہے۔دانش مند آدمی وہ ہے، جو نتیجہ کو دیکھ کر اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔