اسفل سافلین
قرآن کی سورہ التین میں انسان کے بارے میں ایک عمومی اعلان ان الفاظ میں آیا ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ، ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ (95:4-5)۔ یعنی ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا:
We have indeed created man in the best of mould, then We cast him down as the lowest of the low.
انسان کی ساخت بہترین ساخت ہے، یہ ایک معلوم بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کا تخلیقی نقشہ تمام دوسری مخلوقات سے بہتر صورت میں بنایا گیا ہے۔ خاص طور پر دماغ (mind)ایک ایسا عطیہ ہے جو انسان کے سوا کسی بھی مخلوق کو نہیں دیا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اسفل سافلین سے کیا مراد ہے۔ وہ کیا چیز ہے جس میں انسان دوسری تمام مخلوقات کے مقابلے میں کمتر درجہ میں ہے۔ انسان کی حیثیت ایک جاندار مخلوق کی ہے۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، جاندار اشیاء کی ایک ضرورت وہ ہے جس کو ہیبیٹاٹ (habitat)کہا جاتا ہے۔ہیبیٹاٹ سے مراد وہ فطری مسکن (natural home) ہے جہاں کوئی جاندار مخلوق اپنی زندگی کے تمام تقاضوں کے ساتھ رہ سکے:
(Habitat is) the natural home or environment of an animal, plant, or other organism.
سیارۂ ارض (planet earth)کے اوپر چھوٹی بڑی بہت سی زندہ اشیاء پائی جاتی ہیں۔ ان زندہ اشیاء کی تعداد سائنسی مطالعے کے مطابق، تقریباً ایک ٹریلین ہے:
In May 2016, scientists reported that 1 trillion species are estimated to be on Earth.
مطالعہ بتاتا ہے کہ زمین پر موجود زندہ اشیاء میں سے ہر ایک کا ہیبیٹاٹ یہاں موجود ہے۔ مثلاً مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، پانی مچھلی کا ہیبیٹاٹ ہے۔ چناں چہ خالق نے مچھلیکے ساتھ اس کا ہیبیٹاٹ دریا اور سمندر کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ مگر اس دنیا میں صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کا ہیبیٹاٹ یہاں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں کبھی فل فِلمینٹ (fulfilment)نہیں ملتا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کو احسن تقویم کے اعتبار سے، احسن ہیبیٹاٹ درکار ہے۔ موجودہ دنیا کی محدودیتوں (limitations)کی وجہ سے یہاں احسن ہیبیٹاٹ نہیں بن سکتا۔ اس لیے خالق نے ایسا کیا کہ موجودہ دنیا میں انسان کو بقدر ضرورت مسکن عطا کیا،اور موت کے بعد کی ابدی زندگی میں اس کے لیے اس کی حقیقی طلب کے مطابق، احسن ہیبیٹاٹ کا انتظام کیا۔ اسی احسن ہیبیٹاٹ کا نام جنت (Paradise)ہے۔ یہی مطلب ہے احکم الحاکمین (the best of the judges)کا۔ یعنی اعلیٰ انصاف کا تقاضا تھا کہ انسان کو اس کی تخلیق کے مطابق ایک احسن ہیبیٹاٹ دیا جائے۔ اس لیے خالق نے انسان کے لیے جنت کو اس کا ہیبیٹاٹ بنایا۔
ایک نابینا شاعر کی نعتیہ نظم ہے۔ اس کا ایک شعر یہ ہے:
بصارت کھوگئی تو کیا بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
اس شعر میں عجیب درد اور عجیب گہرائی ہے۔ مگر ایسا شعر صرف ایک ایسا شخص ہی کہہ سکتا تھا، جس نے اپنی دونوں آنکھیں کھودی ہوں۔ جس شخص کی دونوں آنکھیں روشن ہوں اس کی زبان سے ایسا شعر نکل نہیں سکتا۔
اس دنیا کا عجیب نظام ہے۔ یہاں کھونے والا بھی پاتا ہے۔ بلکہ اکثر کھونے والا شخص اس سے زیادہ پالیتا ہے جتنا کوئی بظاہر پانے والا شخص پائے ہوئے ہو۔
(ڈائری، 1983)