اللہ سے امید
ایک عرب عالم ناصر عبد الغفور نے انٹرنیٹ پر اپنے ایک مضمو ن میں لکھا ہے کہ سلف کے نزدیک زیادہ امید والی آیت کے معاملے میں اختلاف ہے۔ امام سیوطی نے پندرہ یا سولہ قول ذکر کیا ہے: اختلف السلف فی أرجى آیة على أقوال کثیرة عد منہا الإمام السیوطی خمسة عشر أو ستة عشر قولا ( أرجى آیة فی القرآن الکریم [ملتقی اہل التفسیر])۔
اسی طرح احادیث کے ذخیرے میں بھی ایسی حدیثیں ہیں، جن کو حدیث رجاء کہا جاسکتا ہے۔ انھیں میں سے ایک حدیث قدسی ہے۔ المسند الموضوعی الجامع للکتب العشرة میں مولف کتاب نے باب سعة رحمة اللہ ومغفرتہ(1/107)کے تحت مختلف کتابوں سےاس حدیث کی 24 روایتوں کو نقل کیا ہے۔ ان میں سےصحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:لما قضى اللہ الخلق کتب فی کتابہ فہو عندہ فوق العرش إن رحمتی غلبت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194)۔اس حدیث میں غضب اور رحمت کے جو الفاظ آئے ہیں، اس کی شرح میں الحسین بن محمد عبداللہ الطیبی (وفات:743ھ)نے کہا: وأنہا تنالہم من غیر استحقاق، وأن الغضب لاینالہم إلا باستحقاق (عمدة القاری شرح صحیح البخاری15/110)۔ یعنی اللہ کی رحمت انسان کو بغیر استحقاق کے ملتی ہے، اور غضب صرف ان کو ملتا ہے جو اس کا مستحق ہو۔
اس حدیث قدسی میں اہل ایمان کے لیے بہت بڑی امید کا سامان ہے۔ کیوں کہ جب اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے تو بندہ یہ امید کرسکتا ہے کہ اس کو اللہ کی مغفرت بلااستحقاق بھی مل سکتی ہے۔ یہ پہلو ایک مومن کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اس حدیث قدسی کے حوالے سے اللہ سے مغفرت کی ایسی دعا کرے، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہو۔ غضب کی حد ہوسکتی ہے، لیکن رحمت کی کوئی حد نہیں۔ کوئی شخص اللہ سے غضب نہیں مانگے گا، مگر رحمت ایک ایسی چیز ہے جس کو ہر آدمی اللہ سے مانگ سکتا ہے۔