قتل گاہ یا صحت گاہ

بیسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں جدید طرز کی تعلیم کے ادارے قائم ہوئے۔ یہ برٹش رول کا زمانہ تھا۔ تاہم سیاسی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کا مذہبی طبقہ عمومی طور پر انگریزی تعلیم کا مخالف بن گیا۔ ایک عالم نے یونیورسٹی کے بارے میں لکھا کہ وہ مسلمانوں کے لیے قتل گاہ ہے۔ ایک اور عالم نے جدید طرز کی تعلیم گاہوں پر ایک کتاب لکھی، جس کا ٹائٹل تھا: ردۃ و لا ابابکر لہا (ایک ارتداد ہے، لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ابوبکر نہیں )۔ ایک مشہور شاعر نے انگریزی تعلیم گاہوں کے بارے میں یہ شعر لکھا:

یوں قتل پہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا  افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

اس قسم کی منفی بات صرف زمانے سے بے خبری کا نتیجہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی تعلیم گاہیں ہمارے نوجوانوں کے اندر سے توہم پرستی کا ذہن ختم کررہی تھیں، اور ان کو سادہ ذہن (clean slate)بنارہی تھیں۔ مگر ہمارے رہنماؤں نے اس راز کو نہیں سمجھا، اور غیر ضروری طور پر بےجا مخالفت شروع کردی۔

اس وقت کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ عصری اسلوب (modern idiom) میں اسلام پر کتابیں تیار کی جائیں، اور ان کتابوں کو مسلم نوجوانوں میں بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید تعلیم ایک موقع (opportunity) کی حیثیت رکھتی تھی، مگر ہمارے رہنما اس کو موقع کی حیثیت سے دیکھنے میں ناکام رہے۔ اس بنا پر وہ ان کو استعمال کرنے سے بھی محروم رہے۔

اس معاملے کا شدید تر نقصان یہ ہوا کہ ان علماء کو ماننے والوں کی بعد کی نسلیں ڈبل اسٹینڈرڈ بن گئیں۔ چناں چہ آج یہ حال ہے کہ یہ مسلمان اپنے علماء اور رہنماؤں کے مفروضہ کارناموں پر لفظی قصیدے پڑھتے ہیں، لیکن عملاً اپنے بچوں کو انھیں تعلیم گاہوں میں تعلیم دلاکر فخر محسوس کرتے ہیں۔ منافقت کلچر کا اتنا بڑا واقعہ شاید پوری مسلم تاریخ میں کبھی پیش نہیں آٰیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom