قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت
امت مسلمہ کی سیاسی تاریخ کا یہ ایک معلوم واقعہ ہے کہ تقریباً تمام علماء نے اس پر اتفاق کر لیا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے تقریباً تیس سال بعد خاندانی حکومت (dynasty) قائم ہوگئی۔ یہ خاندانی حکومت بنو امیہ سے شروع ہوئی اور عثمانی ترکوں کی خلافت قائم رہی۔ لیکن علمائے امت نے کبھی اس کے خلاف خروج (بغاوت) نہیں کیا۔ اس سے اسلام کا یہ سیاسی اصول معلوم ہوتا ہے کہ اگر قائم شدہ حکومت بظاہر لوگوں کو غلط حکومت معلوم ہوتی ہو تو ان کے لیے اس کے خلاف بغاوت کا آپشن نہیں ہے، بلکہ صرف ایک آپشن ہے، اور وہ ہے نصیحت۔ یعنی حاکم کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنے کے بجائے، خیرخواہانہ نصیحت کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا۔
اس معاملے کی ایک جزئی مثال یہ ہے کہ بنو امیہ کا حکمراں سلیمان بن عبد الملک اپنے بیٹے کو اپنے بعد حکومت کے لیے نامزد کرنا چاہتا تھا، جو بظاہر اچھا انتخاب نہ تھا۔ اس کے زمانے کے ایک عالم رجاء ابن حیوہ نے سلیمان بن عبد الملک کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ خاموش نصیحت کے ذریعے اس کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کی۔ ان کی یہ کوشش کامیاب رہی۔ چناں چہ سلیمان بن عبدالملک نے ایک باقاعدہ تحریر کے ذریعے یہ وصیت کی کہ اس کے بعد اس کے بیٹے کے بجائے عمر بن عبد العزیز کو ان کی جگہ حاکم بنایا جائے، جو کہ مسلمہ طور پر سلیمان کے بیٹے سے زیادہ اہل تھے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ علماء نے ظالم حکمراں کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دیا تھا۔ لیکن بعد کو تجربے سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی بغاوت کا نتیجہ شدید تر برائی (greater evil) کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس عملی نتیجہ کو دیکھنے کے بعد علماء کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ کسی قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔ اس سلسلے میں یہاں ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے: (الحسن بن صالح)کان یرى السیف یعنی کان یرى الخروج بالسیف على أئمة الجور وہذا مذہب للسلف قدیم لکن أستقر الأمر على ترک ذلک لما رأوہ قد أفضى إلى أشد منہ ففی وقعة الحرة ووقعة بن الأشعث وغیرہما عظة لمن تدبر۔ (تہذیب التہذیب لابن حجر العسقلانی، باب الحسن بن صالح(516)،دائرة المعارف النظامیة، الہند،الطبعة الأولى، 1326ھ، 2/285)۔یعنی حسن بن صالح ظالم حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کو درست سمجھتے تھے۔ یہ سلف کا قدیم مذہب ہے۔ لیکن بعد میں اس معاملے میں یہ رائے طے پائی کہ ایسا نہ کیا جائے۔ کیوں کہ علماء نے یہ دیکھا کہ مسلح بغاوت کا طریقہ پہلے سے زیادہ شدید حالات کا سبب بن گیا۔ چناں چہ حرہ اورابن الاشعث وغیرہ، کے واقعے میں غور کرنے والوں کے لیے نصیحت کا بڑا سامان ہے۔
قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کی ممانعت کے بارے میں بہت سی حدیثیں موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، عرب عالم عبدالرحمان بن معلا اللویحق کی کتاب الغلو فی الدین کا چیپٹر الخروج علی الحکام(بیروت، 1992)۔صریح ممانعت کے باوجود کیوں ایسا ہوا کہ کچھ علماء نے قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دے دیا۔ ان علماء میں امام ابوحنیفہ بھی شامل ہیں۔ ابوبکر الجصاص نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: وکان مذہبہ (یعنی أبا حنیفة) مشہورا فی قتال الظلمة وأئمة الجور(احکام القرآن للجصاص، بیروت، 1405ھ، سورۃ البقرۃ:124)۔ یعنی ابوحنیفہ کا یہ مسلک مشہورہے کہ وہ ظالم حکمراں اور ائمۂ جور کے خلاف خروج کو جائز سمجھتے تھے۔
ابو حنیفہ اور دوسرے علماء کے اس مسلک کو کچھ لوگوں نےاجتہادی خطا قرار دیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں صریح طور پر ظلم پر صرف صبر کا حکم دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے دور میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے جسموں میں شیطان جیسا دل ہوگا۔ اس پر صحابی حذیفہ بن یمان نے سوال کیا، اے اللہ کے رسول، اس وقت میں کیا کروں۔ آپ نے فرمایا: تسمع وتطیع للأمیر، وإن ضرب ظہرک، وأخذ مالک، فاسمع وأطع(صحیح مسلم، حدیث نمبر1847)۔یعنی تم امیر کی بات سنو، اور ان کی اطاعت کرو، خواہ وہ تمھاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تم سے تمھارا مال چھین لے، تم ان کی بات سنو، اور ان کی اطاعت کرو۔
اس طرح کی صریح ہدایت کے باوجود کیوں متعدد علماء نے قائم شدہ حکوت کے خلاف بغاوت (خروج)کو شرعاًجائز قرار دے دیا۔ اس کا سبب ایک حدیث کی غلط تاویل تھی۔ وہ حدیث یہ ہے: صحابی عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ بایعنا على السمع والطاعة، فی منشطنا ومکرہنا، وعسرنا ویسرنا وأثرة علینا، وأن لا ننازع الأمر أہلہ، إلا أن تروا کفرا بواحا، عندکم من اللہ فیہ برہان(صحیح البخاری، حدیث نمبر7056۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1709)۔یعنی ہم نے اس بات پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے، اپنی پسند میں بھی اور اپنی پسند کے خلاف بھی، مشکل میں اور آسانی میں، اور اس پر کہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دی جائے، اور یہ کہ ہم اہل اقتدار سے نزاع نہیں کریں گے۔ الا یہ کہ تم کفر بواح (کھلا کھلاکفر) دیکھو، جس میں تمھارے پاس اللہ کی برہان (واضح دلیل)موجود ہو۔
اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں جو استثنا ہے وہ کفر بواح کا استثنا ہے، ظلم و جور کا استثنا نہیں ہے۔ ظلم و جور ایک عملی روش ہےاور کفر بواح ایک اعتقادی معاملہ ہے۔دیگر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ ظلم و جور پر ہر گز خروج جائز نہیں۔ حتی کہ ظالم کے خلاف پر امن مظاہرہ (peaceful demonstration) بھی جائز نہیں ہے۔ پر امن تدابیر کے ذریعے حکمراں کو اقتدار سے ہٹانا بھی یقینی طور پر ناجائز ہے۔ ظلم و جور کے معاملےمیں صرف لسانی نصیحت جائز ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
حدیث میں کفر بواح پر خروج کا جو ذکر ہے، وہ بھی حقیقۃ ًمستثنیٰ نہیں۔ یہ در اصل وہی چیز ہے جس کو تعلیق بالمحال یا تعلیق الشرط بالامر علی المحال کہتے ہیں۔یعنی کسی معاملے کو ناممکن الوقوع امر پر منحصر کرنا۔ اس نوعیت کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: إِنَّ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوا عَنْہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِینَ (7:40)۔ یعنی بے شک جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا، ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں نہ گھس جائے۔ اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا محال ہے۔ اسی طرح ان مستکبرین کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔ قرآن کی اس آیت میں حقیقۃ عدم وقوع کا ذکر ہے نہ کہ وقوع کا۔
قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کو حرام قرار دینا ایک عظیم حکمت پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ جب بھی کسی قائم شدہ حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی جائے تو ارباب حکومت لازما ًایسی کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ وہ اس کے لیے ہر جوابی تدبیر اختیار کریں گے۔ اس کے نتیجے میں طرفین کے درمیان شدید ٹکراؤ شروع ہوجائے گا۔ یہ ٹکراؤ خونی ٹکراؤ تک پہنچ جائے گا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں ہر قسم کی تباہی پیش آئے گی۔ گویا ٹکراؤ کرنے والوں کا اعلان تو یہ ہوگا کہ ہم اصلاحِ حکومت کے لیے ٹکراؤ کررہے ہیں، لیکن باعتبار نتیجہ جو چیز سامنے آئے گی، وہ صرف فساد ہو گا، نہ کہ اصلاح۔
اسلام میں قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت (خروج )کو حرام قرار دینا صرف ایک منفی حکم نہیں ہے، بلکہ وہ مکمل طور پر ایک مثبت حکم ہے۔ اس کا مقصدیہ ہے کہ اس طرح کے موقعے پر ایسے آپشن کو لیا جائے جو مزید تباہی سے پاک ہو، اور وہ ہے پر امن نصیحت کا طریقہ اختیار کرنا۔
اسلام ایک ایسے برتر خدا کا تصور دیتا ہے، جو سب سے بلند ہے۔ کسی سماج میں خدا کا تصور زندہ ہو تو یہ اس سماج کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے بعد ایک شخص کے لیے ممکن ہوجا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر کسی ظالم کو ظلم سے باز رکھے۔ (ڈائری، 1983)