اسلامی حکومت

موجودہ زمانے میں اسلامی حکومت کا تصور قرآن و سنت کی تعلیم کی بنیاد پر نہیں پیدا ہوا۔ بلکہ وہ اسی چیز کاایک ظاہرہ ہے جس کو قرآن میں مضاہات (التوبہ:30) کہا گیا ہے۔ یعنی خارجی ماحول کے اثر سے اسلام کی تشریح و تعبیر اس طرح کرنا کہ وہ خارجی معیار کے مطابق نظر آئے۔

قدیم زمانےمیں حکومت شخصی حکومت کے ہم معنی ہوا کرتی تھی۔ اس تصور حکومت کا اظہار خاندانی بادشاہت (dynasty)کی صورت میں ہوا۔ موجودہ زمانےمیں سوشلزم اور ڈیماکریسی کے اثر سے نظریاتی حکومت کا تصور پیدا ہوا۔ پہلے یہ تھا کہ ایک شخص بادشاہ کی نسل سے تعلق رکھنے کی بنا پر بادشاہت کا دعویدار ہوا کرتا تھا۔ اب یہ ہوا کہ اولوالعزم لوگوں نے پولیٹکل آئڈیالوجی (political ideology) کے ذریعے حکومت کے لیے لڑائی کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں مختلف قسم کی پولیٹکل آئڈیالوجی وجود میں آئی۔

نظریاتی حکومت کا یہ تصور موجودہ زمانے میں لوگوں کو زیادہ اہم معلوم ہونے لگا۔ اس کے اثر سے مسلم مفکرین نے بھی اسلام کو انھیں اصطلاحات کی شکل میں بیان کرنا شروع کیا۔ انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کو شش کی کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے۔ اور اسلام کا نظام حکومت سب سے بہتر نظام حکومت ہے۔ اس لیے اہل اسلام کو یہ حق ہے کہ وہ اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے اس دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کریں۔ یہ نظریہ قرآن کے نام پر پیش کیا گیا۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مضاہات (imitation) تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا تصور ایک مبتدعانہ تصور (innovated concept) ہے۔ قرآن میں کوئی بھی آیت اس مضمون کی نہیں ہے کہ اقم دولۃ الاسلام (اسلامی حکومت قائم کرو)، یا نفذ الشریعۃ الاسلامیۃ (اسلامی شریعت نافذ کرو)۔ یہی حال احادیث کے پورے ذخیرے کا ہے۔ پورے ذخیرۂ حدیث میں کوئی بھی حدیث رسول اس مفہوم کی نہیں ہے کہ اے مسلمانو، تمھارا مشن یہ ہے کہ تم اسلام کی بنیاد پر سیاسی انقلاب لائو یاحکومت قائم کرو۔

قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے معاملے میں اسلام کا نشانہ کوئی مخصوص نظامِ حکومت قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ سیاست کے معاملے میں اسلام کا اصل نشانہ صرف تمکین فی الارض (الحج:41)ہے۔ تمکین سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میں سیاسی استحکام (political stability) کہا جاتا ہے۔ سیاسی نظام فارم کے اعتبار سے جو بھی ہو، اگر اس کے ذریعے سیاسی استحکام قائم ہوجائے تو اہل اسلام کے لیے وہ قابلِ قبول ہوگا۔ خواہ بظاہر اس کی عملی صورت جوبھی ہو۔

سیاست کے بارے میں اس تصور کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد جو نظامِ حکومت قائم ہوا،وہ فارم کے اعتبار سے کوئی واحد سیاسی فارم پر مبنی نظام نہ تھا۔ خلیفۂ اول کی تقرری ایک محدود شورائی اصول کے مطابق ہوئی۔ خلیفۂ ثانی کی تقرری نامزدگی (nomination)کے اصول پر ہوئی۔ خلیفۂ ثالث کی تقرری ایک بورڈ کے ذریعہ انجام پائی۔ خلیفۂ چہارم کی تقرری کسی متفق علیہ اصول کی بنیاد پر نہیں ہوئی، اسی لیے بہت جلد بغاوت کی صورت پیدا ہوگئی۔عمر بن عبد العزیز کو اگر خلیفۂ پنجم مانا جائے تو ان کی تقرری وقت کے سلطان (سلیمان بن عبد الملک)کی وصیت کے مطابق ہوئی، جو بوقت وفات ایک لفافے میں بند کردی گئی تھی۔

وہ دور جس کوخلافت راشدہ کہاجاتا ہے۔ وہ تقریباً تیس سال قائم رہا۔ اس کے بعد مسلم دنیا میں خاندانی حکومت (dynasty) قائم ہوگئی۔ جو اگلے ہزار سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔ خاندانی حکومت کا یہ نظام جو بلاشبہ شورائی ماڈل (الشوریٰ:38)کے مطابق نہ تھا۔لیکن اس دور کے تمام علماء نے اس خاندانی نظام کو عملاً تسلیم کرلیا۔ حتی کہ تمام علماء کے اتفاق رائے سے یہ مسئلہ بن گیا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔ خواہ وہ کسی کے نزدیک بظاہر’’حکومتِ فاسقہ‘‘ کیوں نہ ہو۔ صحیح مسلم کے شارح امام النووی نے اپنے زمانے کے علماء کے متفقہ موقف کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: وأما الخروج علیہم وقتالہم فحرام بإجماع المسلمین وإن کانوا فسقة ظالمین (شرح النووی علی صحیح مسلم،بیروت، 1392ھ، 12/229)۔ یعنی اور جہاں تک ان کے خلاف خروج یا ان سے قتال کا معاملہ ہے وہ مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے۔خواہ (بظاہر) وہ فاسق اور ظالم کیوں نہ ہوں۔

تسلیم کرنے والے اس گروہ میں صحابہ، تابعین، اور تبع تابعین بھی شامل تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خاندانی حکومت کانظام اگر چہ شورائی ماڈل کے مطابق نہ تھا۔ لیکن اس کے ذریعے مطلوب سیاسی استحکام حاصل ہورہا تھا۔ اس کے ذریعے امن کی حالت قائم ہوگئی اور یہ ممکن ہوگیا کہ اس کے تحت ہر قسم کی دینی سرگرمیاں جاری رکھی جاسکیں۔

ا س معاملے میں علماء کے اس متفق علیہ مسلک کا سبب کیا تھا۔ یہ سبب پرکٹیکل وزڈم کے اصول پر قائم تھا۔ یعنی زیادہ بڑی برائی (greater evil) سے بچنے کے لیے چھوٹی برائی (lesser evil) پر راضی ہوجانا۔ اسی حقیقت کو فقہاء اھون البلیتَین کی اصطلاح میں بیان کرتے ہیں۔یعنی بڑی مصیبت سے بچنےکے لیے چھوٹی مصیبت پر راضی ہوجانا۔

مگراسلامی حکومت کے مبتدعانہ تصور نے موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا کہ اتنا بڑا نقصان اسلام کی پوری تاریخ میں شاید کسی نظریہ نے نہیں پہنچایا۔

اسلامی حکومت کے اس خود ساختہ تصور کا یہ نتیجہ ہوا کہ مسلمانوں کا دینی نشانہ بدل گیا۔ قرآن و سنت کے مطابق، اہل اسلام کا دینی نشانہ اصلاً صرف ایک تھا، تزکیۂ ذات (self-purification)۔ لیکن اس نام نہاد انقلابی نظریہ نے اس کے بجائے مسلمانوں کو یہ نشانہ دے دیا کہ وہ سیاسی حکمرانوں سے لڑ کر ان سے ’’اقتدارکی کنجیاں ‘‘ چھین لیں۔ اور پھر اقتدار کے منصب پر قبضہ کرکے اپنے مفروضہ نظام کو عملاً قائم کریں۔ اس کا معکوس نتیجہ فطری طور پر یہ ہوا کہ اقتدار کی سیٹ پر قبضہ تو نہ ہو سکا، البتہ مختلف قسم کی برائیاں مسلم معاشرے میں پھیل گئیں۔ مثلا دینی نشانہ کا بدل جانا، مسلم امت کا دو متحارب گروہوں میں تقسیم ہوجانا، اسلام کی پرامن تصویر کے بجائے، پر تشدد تصویر (violent image) کا بن جانا، وغیرہ۔

مزید یہ کہ اس نام نہاد سیاسی تشریح کو قرآن سے ثابت کرنے کے لیے قرآن کے سنجیدہ مطالعہ کا مزاج ختم ہوگیا۔ اب مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر غلط ذہن عام ہوگیا ہے۔ وہ قرآن کی آزادانہ تفسیر کو درست تفسیر سمجھنے لگے۔ قرآن میں طاغوت شیطان کے معنی میں استعمال ہوا تھا، اس کو سیاسی لیڈر کے معنی میں لیا جانے لگا۔ قرآن میں حُکم کا لفظ فوق الطبیعی اقتدار (super-natural power) کے معنی میں استعمال ہوا تھا۔ اب اس کو سیاسی اقتدار (political power) کے معنی میں لے لیا گیا۔ قرآن میں دین کا لفظ مذہب کے معنی میں استعمال ہوا تھا، اس کو اسٹیٹ کے معنی میں لے لیا گیا، وغیرہ۔

 

اخوان المسلمون کی تحریک کو مصر اور دوسرے عرب ملکوں میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ اخوانی تحریک کے مختلف شعبے تھے۔ ان میں سے ایک فوجی شعبہ تھا جس کو جناح عسکری کہا جاتا تھا۔ اخوان کے جناح عسکری کے سربراہ حسن دوح (Hasan Dawh) تھے۔

موجودہ زمانہ میں جو اسلامی تحریکیں اٹھیں، ان سب کا یہی حال رہا ہے۔ کسی میں جناح عسکری عملاً قائم تھا، اور کسی میں صرف ذہنی طور پر وہ پایا جاتا تھا۔تحریکوں کی اس عسکریت کا سبب یہ ہے کہ وہ ’’دشمنان اسلام‘‘ کے رد عمل میں اٹھیں۔ کوئی یہودیوں کی خلاف، کوئی انگریزوں کے خلاف، کوئی فرانسیسیوں کے خلاف۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب میں مشترک طور پر نفرت اور تشدد کا ذہن پایا جاتا ہے۔

موجودہ زمانہ کی ان تحریکوں میں سے کوئی تحریک ‘‘جناح دعوتی‘‘ نہ تھا۔اگر یہ تحریک حقیقی معنوں میں دعوتی محرک کے طور پر اٹھتیں تو نہ صرف ان کے یہاں جناح دعوتی موجود ہوتا بلکہ ان کے یہاں دعوت ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی۔ اور پھر ان کا مزاج نفرت اور تشدد کے بجائے محبت اور امن کا بنتا۔دعوت کا کام دلوں کو جیت کر اور ذہنوں کو مطمئن کرکے ہوتا ہے، اس لیے داعی کے اندر دوسروں سے محبت اور خیر خواہی کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ (ڈائری، 1983)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom