مادی کائنات، انسانی تاریخ
اللہ نے دو دنیائیں بنائی، ایک مادی دنیا اور دوسری انسانی دنیا۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں دنیاؤں کے ڈیولپمنٹ کے لیے اللہ نے پراسس (process) کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی تدریج کے تحت ڈیولپ کرتے ہوئے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچانا۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ انسان مطالعہ کرکے تاریخ کا علم حاصل کرسکے۔ اور اس طرح تخلیق کی معرفت سے آگاہ ہو۔
مادی کائنات کی تخلیق کا معاملہ حسب ذیل آیت کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے: ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ (41:11)۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔ اور وہ دھواں تھا۔ پھر اس نے آسمان اور زمین سے کہا کہ تم دونوں آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے۔ دونوں نے کہا کہ ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مادی دنیا کواس معاملے میں ذاتی اختیار حاصل نہ تھا۔ خالق نے جس طرح مادی دنیا کو ہدایت دی، ٹھیک اس کے مطابق مادی دنیا چلتی رہی۔ یہاں تک کہ اپنے کمال تک پہنچی۔ اس عمل کا آغاز بگ بینگ (الانبیاء30:) سے شروع ہوا۔ اور نظامِ شمسی کے وجود میں آنے پر مکمل ہوا۔
انسانی دنیا کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ انسان کو اللہ نے مکمل آزادی دی تھی۔ اس لیے یہاں اللہ نے انسان کی تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، تاریخ کو مینج کرنا، اور اس کو مطلوب نقطۂ کمال تک پہنچانا۔
اللہ کے منصوبہ کے مطابق، انسانی تاریخ مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ مثلاً طوفانِ نوح کے بعد انسانی آبادی کا منتشر ہوکر ساری دنیا میں آباد ہونا، حضرت ابراہیم کے ذریعے ایک نئی نسل کی تیاری، رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے مذہبی جبر کے دور کو ختم کرنا اور دنیا میں آزادی کا دور لانا، وغیرہ۔ انسانی تاریخ کے حوالے سے جو کام انجام پایا اس کی آخری مثال وہ ہے جس کو علامتی طور پر جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاسکتا ہے۔
جدید تہذیب کیا ہے۔ جدید تہذیب اصلاً یہ ہے کہ فطرت کے اندر چھپے ہوئے رازوں کو دریافت کرنا اور انسانی تاریخ کو روایتی دور سے نکال کر ٹکنالوجی کے دور تک پہنچانا۔تہذیب کا یہ دور بظاہر مادی ترقی کا دور ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ یہ ہے کہ خدا کے دین کو عالمی دعوت کے دور میں پہنچایا جائے۔ اس لحاظ سے جدید تہذیب موافقِ اسلام تہذیب ہے۔ جدید تہذیب اور اسلام میں کوئی حقیقی ٹکراؤ نہیں۔
اس دورِ تہذیب کا آغاز رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ شروع ہوا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ فطرت (nature) جو ہزاروں سال سے پرستش کا موضوع (object of worship) بنی ہوئی تھی، وہ پہلی بار تسخیر کا موضوع (object of investigation) بن گئی۔ یہ انسانی تاریخ میں ایک انقلابی تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اس عمل کا آغاز رسول اور اصحابِ رسول کےذریعہ عرب میں ہوا۔ اور پھر ترقی کرتے ہوئے وہ مغرب (West) میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔
فطرت کی پرستش کے بجائے فطرت کو تسخیر کرو— یہ اصول پہلی بار قرآن میں بتایا گیا۔ تسخیر کا مادہ قرآن میں 9 بار استعمال ہوا ہے۔ مگر دوسرے الفاظ میں قرآن میں بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ غور فکر کرکے حقائق فطرت کو دریافت کرو۔ اس طرح اسلام نے انسانی تاریخ میں پہلی بار سائنسی غور و فکر (scientific exploration)کا آغاز کیا۔ یہ عمل پہلے ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں شروع ہوا۔ اس کے بعد بتدریج مغربی دنیا تک پہنچا۔
اس سائنسی عمل (scientific process) کا آغاز مسلمانوں نے کیا۔ وہ مکہ سے شروع ہوا۔ پھر وہ مدینہ اور دمشق پہنچا۔ پھر بغداد اور اندلس اس کا سینٹر بنے۔ پندرھویں صدی میں اندلس کی مسلم حکومت ختم ہونے کے بعد مسلم دنیا میں یہ پراسس عملاً موقوف ہوگیا۔
اس خاتمہ کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان اس قربانی (sacrifice) کا ثبوت نہ دے سکے جو اس عمل کے مزید تسلسل کے لیے ضروری تھا۔ اس قربانی کا ثبوت مسیحی قوموں نے دیا۔ اس بنا پر اس عمل کے دودور بن گیے۔ پہلے دور میں مسلم قوموں نے اس میں اپنا رول ادا کیا۔ دوسرے دور میں مسیحی قوموں نے اس کام کو آگے بڑھایا، اور اس کو تکمیل کی حد تک پہنچایا۔ اس قربانی سے مراد جان کی قربانی نہیں تھی بلکہ ایک لفظ میں نئی منصوبہ بندی (replanning) کا راستہ ہے۔ یعنی جب ایک طریقہ کار موثر نہ ہورہا ہو تو پیچھے ہٹ کر دوسرا طریقہ اختیارکرنا۔
قدیم زمانے میں صلیبی جنگوں (Crusades) کا واقعہ پیش آیا۔ یہ مسلم قوموں اور مسیحی قوموں کے درمیان طویل جنگ کا ایک سلسلہ تھا۔ اس کا آغاز 11ویں صدی عیسوی میں ہوا، اور خاتمہ 16ویں صدی عیسوی میں ہوا۔مورخین کے بیان کے مطابق اس جنگ میں مسیحی قوموں کو ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) ہوئی۔
اس شکست کے بعد مسیحی قوموں نے ایک قابل تقلید کام کیا۔ انھوں نے اس کے بعد منفی رد عمل (negative reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا،بلکہ یہ کیا کہ شکست کو بھلا کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی (replanning) کی۔ اس نئی پلاننگ کو روحانی صلیبی جنگ (spiritual crusades) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک لمبا عمل تھا۔ جس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے تاریخ میں پہلی بار تہذیب (civilization) کا ایک نیا دور پیدا کیا۔
مغربی تہذیب کوئی انتقامی تہذیب نہ تھی۔ وہ کسی کے خلاف انتقامی جذبے کے تحت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ مغربی تہذیب کا وجود اس طرح ہوا کہ مغربی قوموں نے جنگ کے میدان کو چھوڑ کر فطر ت کے میدا ن میں اپنا مثبت عمل شروع کیا۔ انھوں نے نیچر میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کیا، جس کے نتیجے میں جدید سائنس وجود میں آئی۔ جدید ٹکنالوجی کی دریافت ہوئی۔ جدید صنعت ظہور میں آئی۔ دنیا کو جدید سامان حیات کا تحفہ ملا۔دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا، جب کہ تشدد کا طریقہ ایک بے نتیجہ طریقہ قرار پایا۔ اس کے بر عکس، امن کا طریقہ زیادہ موثر طریقہ کار کے طور پر ظہور میں آیا۔تاہم مسلمان اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے اس بنا پر وہ غیر دانش مندانہ طور پر مغربی تہذیب کو اپنانے کے بجائے اس کے خلاف ہوگیے۔