قبولیت میں تاخیر
دعا کی قبولیت میں اگر تاخیر ہو تو انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس میں بڑی حکمت پوشیدہ ہوسکتی ہے۔ اس معاملے میں ایک حدیث قدسی ہے، جو ان الفاظ میں آئی ہے:انَّ العبد إذا دعا ربَّہ، وہو یحبہ قال:یا جبریل:لا تعجَل بقضاء حاجة عبدی، فإنی أحبُّ أن أسمع صوتہ(مسند الحارث)۔یعنی بندہ جب اپنے رب کو پکارے، اور وہ اس کو محبوب ہو، تو اللہ جبریل سے کہتا ہے، اے جبریل،میرے بندے کی حاجت پورا کرنے میں جلدی نہ کر، کیوں کہ مجھے پسند ہے کہ میں اس کی آواز سنوں۔
اس سے مراد سادہ طور پر آواز سننا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت بندے میں جو روحانی عمل جاری ہوتا ہے، اللہ چاہتا ہے کہ وہ عمل بندے کے اندر دیر تک جاری رہے۔ اصل یہ ہے کہ تخلیق کے نقشہ (creation plan) کے مطابق، انسان کے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کا عمل معمول کے حالات میں جاری نہیں ہوتا۔ یہ عمل صرف اس وقت جاری ہوتا ہے جب کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آئے، جوانسان کے اندرذہنی طوفان (brainstorming) کی حالت پیدا کردے۔جب ایسا ہوتا ہے تو انسانی ذہن کے تمام بند دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کو ایسے تجربات پیش آئیں جو عام حالات میں پیش نہیں آتے۔
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے ذہن کا جمود (stagnation) ٹوٹے، اور اس کے اندر تخلیقیت (creativity) کا عمل بیدار ہوجائے۔ وہ منفی سوچ سے باہر آئے، اور چیزوں کو مثبت نظر سے دیکھنے لگے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کہ اس کے اندر چھپے ہوئے امکانات (potentials) ظاہر ہوجائیں۔ اس کے اندر وہ سوچ پیدا ہوجائےجس کو بلند سوچ (high thinking) کہا جاتا ہے۔ اب تک اگر وہ مین ( man)تھا تو اب وہ سوپر مین (superman) بن جائے۔