اللہ کی مدد

قرآن میں ایک خدائی قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ (22:40)۔ یعنی اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے۔ بیشک اللہ زبردست ہے، زور والا ہے۔ قرآن کی یہ آیت انسانی تاریخ کے بارے میں ایک خدائی قانون کو بتاتی ہے۔

اصل یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو کامل آزادی دی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ انسانی تاریخ کو برابر مینج بھی کرتا ہے، تاکہ تاریخ کا سفر اپنے صحیح رخ پر جاری رہے۔ مذکورہ آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے اس منصوبے میں انسان کا رول کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان تاریخ کے بارے میں اللہ کے منشا کو دریافت کرے، اور اللہ کے منصوبے کے مطابق تاریخی عمل (historical process) میں اپنا حصہ ادا کرے۔ انسان اگر ایسا کرے تو وہ اللہ کی مدد کا یقینی مستحق بن جاتا ہے۔

اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو اسلام کے دور اول میں پیش آئی۔ وہ یہ کہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد اللہ تعالی نے ایسے حالات پید اکیے کہ اہل ایمان یک طرفہ شرطوں پر فریق ثانی سے صلح کرلے، اور اس طرح فریقین کے درمیان امن کا ماحول بنا کر دعوت کی پلاننگ کرے۔ اس زمانے کے اہل ایمان نے اس معاملے کو سمجھا، اور یک طرفہ صلح کرکے فریقین کے درمیان امن کا ماحول قائم کیا۔ اس طرح گویا اہل ایمان نے اللہ کے جاری کردہ پراسس میں اپنا حصہ ادا کیا۔ اس کے بعد وہ اللہ کی یقینی نصرت کے مستحق بن گیے۔ چناں چہ اس کا نتیجہ فتح مبین کی صورت میں بر آمد ہوا۔

موجودہ زمانے میں دوبارہ اسی قسم کی صورتِ حال زیادہ بڑے پیمانے پر پیدا ہوئی ہے۔ پچھلے تقریباً چار سو سال کے عمل کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر موافقِ اسلام حالات پیدا ہوئے ہیں۔ ایک طرف عالمی سطح پر مذہبی آزادی کو انسان کا مطلق حق مان لیا گیا ہے، اور دوسری طرف اسلامی دعوت کو پھیلانے کے اتنے زیادہ مواقع پیدا ہوئےہیں، جس کو مواقع کا انفجار (opportunity explosion) کہا جاسکتا ہے۔

اب دوبارہ ضرورت ہے کہ اہل ایمان اللہ کی نصرت کریں۔ اس نصرت کی صورت یہ ہے کہ امت مسلمہ دوسری قوموں کے ساتھ اپنے تمام نزاعات کو یک طرفہ طور پر ختم کردے، اور اپنی ساری توجہ صرف ایک نکتے پر لگادے۔ یعنی پیدا شدہ مواقع کو پر امن طور پر دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کرنا۔ اس طرح اہل ایمان اللہ کے پیدا کردہ تاریخی پراسس میں اپنا حصہ ادا کریں گے۔ ایسا کرنا امت مسلمہ کو نصرت الٰہی کا یقینی مستحق بنا دے گا، اور پھر دوبارہ ان کو وہ کامیابی حاصل ہوگی جس کو قرآن میں فتح مبین (الفتح:1) کہا گیا ہے۔

فتح مبین کی اس الٰہی نصرت کو حاصل کرنے کی صرف ایک شرط ہے، اور وہ یہ کہ اہل اسلام اس پورے معاملے کو قومی نقطۂ نظر سے نہ دیکھیں، بلکہ خالص دعوتی نقطۂ نظر سے دیکھیں۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ قومی تعلقات میں ہمیشہ ایسے حالات پیش آتے ہیں، جو بظاہر کسی قوم کے خلاف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ قوم ان حالات کو اپنے خلاف ظلم سمجھ لیتی ہے، اور پھر اس کے نتیجے میں اس قوم کے اندر منفی سوچ پیدا ہوجاتی ہے۔ منفی سوچ قوم کو اس کے لیے نااہل بنا دیتی ہے کہ وہ حالات کے مثبت پہلو کو دریافت کرے، اور ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے معاملے کی منصوبہ بندی مثبت انداز میں کرے۔ یہی منفی ذہن قوموں کے لیےتعمیر میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ہے۔ انھوں نے فطری حالات کو مفروضہ طور پر اپنے خلاف سمجھ لیا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے لگے۔ مظلومیت کے احساس کی مسلمانوں کوبہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ وہ یہ ہے کہ اس احساسِ مظلومیت نے مسلمانوں کو اس بات کے لیے نااہل بنا دیا ہے کہ وہ تاریخ کے مثبت پہلو کو سمجھیں، اور اس میں اپنا حصہ ادا کرتے ہوئے اللہ کی نصرت کے مستحق بنیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom