موت کا ظاہرہ
موت کا ظاہرہ (phenomenon) ایک انتہائی انوکھا ظاہرہ ہے۔ ہر انسان جو اس زمین پر پیدا ہوتا ہے، وہ ضرور ایک دن مر جاتا ہے۔ خواہ بظاہر وہ کتنا ہی تندرست ہو، اس کے پاس کتنے ہی زیادہ اسباب کی کثرت ہو۔ تاریخ میں ایسے انسان پیدا ہوئے، جو اپنے آپ کو موت سے بچانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی کوشش مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ ساری کوشش کے باوجود وہ ایک دن اسی طرح مرگیے، جس طرح اس دنیا میں دوسرے انسان مررہے ہیں۔
یہ واقعہ قرآن کی صداقت کا ایک قطعی ثبوت ہے۔قرآن میں موت کے بارے میں تین بار یہ الفاظ آئے ہیں:کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185, 21:35, 29:57)۔ یعنی ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔اس آیت میں قرآن نے یہ اعلان کیا کہ اس زمین پر پیدا ہونے والے ہر مرد اور ہر عورت کو ضرور ایک دن مرنا ہے۔ اس میں کسی بھی فرد کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ خواہ وہ بادشاہ ہو یا دولت مند یا کوئی بہت بڑا ڈاکٹر۔
یہ پوری انسانی تاریخ کے بارے میں ایک عمومی ریمارک ہے۔ وہ پوری تاریخ انسانی کا احاطہ کیےہوئے ہے۔ تاریخ کے بارے میں قرآن کا یہ ریمارک پوری تاریخ کا ایک عمومی واقعہ بن گیا۔ موت کے بارے میں اس قسم کا بیان کسی بھی کتاب میں موجود نہیں، نہ مذہبی کتاب میں اور نہ غیرمذہبی کتاب میں۔ جو بھی مرد یا عورت اس زمین پر پیدا ہوئے، وہ مقرر مدت کے اندر مر کر اس دنیا سے چلے گیے۔
ایسا ایک عمومی بیان جو عملاً پوری تاریخ کا ایک ثابت شدہ واقعہ بن جائے، یہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ اس قول کا قائل اللہ رب العالمین ہے، وہ ہستی جس کے ہاتھ میں انسان کی موت بھی ہے اور زندگی بھی۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی اپنے آپ ثابت ہوتی ہے کہ قرآن اللہ رب العالمین کی کتاب ہے۔ یہ واقعہ خدا کے وجود کا ثبوت بھی ہے، اور قرآن کی صداقت کا ثبوت بھی۔