آدم کی سنت
آدم اور ابلیس کا قصہ قرآن میں بار بار بیان ہوا ہے۔ قرآن میں اللہ رب العالمین کی زبان سے کہا گیاہے کہ آدم کو جنت سے نکالنے والا ابلیس تھا (الاعراف:27)۔ دوسری طرف قرآن کی کئی آیتوں میں آدم کا کردار بتایا گیا ہے۔ اس معلوم حقیقت کے باوجود کہ ابلیس نے آدم کو بہکا کر جنت سے نکالا۔ آدم نے کبھی ایک بار بھی یہ نہیں کیا کہ وہ ابلیس کو دشمن بتاکر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان برپا کرے، اس کے خلاف بددعا ئیں کرے۔ اس کے برعکس آدم نے جو کیا وہ صرف توبہ تھی۔ انھوں نے اللہ سے یہ دعا کی:رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ (7:23)۔یعنی اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
قرآن کے اس بیان سے ایک مسئلہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی ثابت شدہ دشمن موجود ہو، کسی نے سازش کرکے نقصان پہنچایا ہو، تب بھی انسان کو دوسرے کے خلاف شکایت یا احتجاج نہیں کرنا ہے، بلکہ یہ سوچنا ہے کہ میں اس کی سازش کا شکار کیوں بنا۔ ایسے موقع پر دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے، اپنی اس غلطی کو دریافت کرنا چاہیے کہ اس کے بھٹکنے کا سبب کیا تھا۔
اس طرح کے معاملے میں دوسرے کو برا بتانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے برعکس، اگر آدمی اپنی غلطی کو مانے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی کمزوری کو دریافت کرے گا، اور اس طرح اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی اصلاح کرکے آئندہ اپنے آپ کو نقصان سے بچائے۔دوسرے کے خلاف شکایت کرنا، باعتبار نتیجہ اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے، اس کے برعکس اگر آدمی اپنی غلطی کو مانے تو اس کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اپنی کمزوری کو شعوری طور پر جانے اور اس کی اصلاح کے ذریعہ اپنے کو درست کرلے۔ کسی کو دشمن بتاکر اس کے خلاف ہنگامہ کرنا کوئی کام ہی نہیں۔ کام صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کو مانے، اوراس کی اصلاح کرے۔