قتال فی سبیل اللہ، دعوت الی اللہ

قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اللہ کی راہ میں قتال کریں (الصف:4)۔ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے کہیں یہ لفظ نہیں آیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتا ہے۔ قرآن میں ایسے لوگوں کے لیے جو لفظ آیا ہے وہ قول احسن (فصلت:33) ہے۔خالص موضوعی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ فرق بہت قابل غور معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ دعوت الی اللہ کا کام ایک ایجابی کام ہے۔ اس کے مقابلے میں قتال فی سبیل اللہ کا کام بظاہر ایک سلبی کام ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک سلبی کام تو ایک محبوب کام ہو لیکن ایجابی کام محبوب کام نہ ہو۔اللہ کے نزدیک یہ محبوب ہو کہ انسانوں کو جنگ کرکے قتل کردیا جائے، اور یہ محبوب نہ ہو کہ انسان کے اندر اللہ رب العالمین کی معرفت پیدا کی جائے تاکہ وہ جنت میں داخلے کامستحق قرار پائے۔اس معاملے میں بداہۃً اصل حقیقت یہی ہے۔

مزید یہ کہ اگر اس نقطۂ نظر سے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو دعوت الی اللہ کا کام رسول اللہ کے عہد کے بعد بظاہر ایک مسنگ آئٹم (missing item) نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں قتل و قتال کا کام اتنا زیادہ عام ہے کہ اسلام کی پوری تاریخ میں پھیلا ہوا ہے، اور آج تک جاری ہے۔ یہ اسلام کی تاریخ کا بہت بڑا سوال ہے۔ اس سوال کا گہرا تعلق احیاء اسلام سے ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک دعوت الی اللہ کا کام بلاشبہ قتال فی سبیل اللہ کے کام سے زیادہ بڑا ہے۔ البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ قتال فی سبیل اللہ کے کام کی اہمیت نص کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دعوت الی اللہ کے کام کی اہمیت اجتہاد کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔اصل یہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں عملا ً سب سے بڑا کام یہ تھا کہ دنیا سے فتنہ (البقرۃ:193)کا خاتمہ کیا جائے، یعنی مذہبی جبر (religious persecution) کا خاتمہ۔

ہزاروں سال کےاندر یہ فتنہ اتنا زیادہ جڑ پکڑ چکا تھا کہ شدید قتال کے بغیر اس کا خاتمہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس وقت قتال تا ختم فتنہ پر بہت زیادہ زور دیا جائے تاکہ فوکس ہٹنے نہ پائے۔ لیکن اب جب کہ فتنہ کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ بذریعہ اجتہاد یہ معلوم کیا جائے کہ اللہ کا مطلوب ایجابی کام کیا ہے۔ جب سلبی کام کی ضرورت باقی نہ رہے۔ تو اس کے بعد اپنے آپ ایجابی کام نمبر ایک کام بن جاتا ہے۔ اب جب کہ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے تمام دروازے کھل چکے ہیں تو اب ہمیں بذریعہ اجتہاد یہ معلوم کرنا ہے کہ اب ساری اہمیت دعوت الی اللہ کی ہے۔ قدیم زمانے میں قتال برائے ختم فتنہ اور دعوت الی اللہ دونوں کام ساتھ ساتھ کرنا پڑتا تھا۔ اب قتال برائے ختم فتنہ کا حکم عملاً موقوف ہوچکا ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ پوری طاقت صرف ایک کام میں لگادی جائے۔ یعنی دعوت الی اللہ کے کام میں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن میں قتال پر محبت ماہیت کے اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ ضرورت کے اعتبار سے ہے۔ تاکہ لوگوں میں شوق پیدا ہو، اور فوکس ہٹنے نہ پائے۔

غزوۂ بدر کے موقع پر رسول اللہ نے یہ دعا کی تھی:اللہم إنک إن تہلک ہذہ العصابة من أہل الإسلام، فلا تعبد فی الأرض أبدا (مسند احمد، حدیث نمبر208)۔ یعنی اے اللہ اگر تو اہل اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کردے، تو زمین میں پھر کبھی تیری عبادت نہ ہو گی۔ پیغمبر کی اس دعا کو اس کے پس منظر کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مذہبی تشدد کا نظام حکومت کی تائید سے بے حد پختہ ہوچکا تھا۔ یہ نظام صرف بزور طاقت ختم ہوسکتا تھا۔ اس جابرانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے ایک جانباز گروہ درکار تھا۔ اصحاب رسول یہی جانباز گروہ تھے، جو لمبی مدت کے اندر تیار کیے گیے تھے۔ عملی اعتبار سے یہ ناؤ آر نیور (now or never) کا معاملہ بن گیا تھا۔ اگر اس گروہ کو استعمال کرکے جبر کے نظام کو ختم نہ کیاجاتا تو بظاہر وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں تھا۔ رسول اللہ کی دعا کا مطلب یہ تھا کہ اس تاریخی موقع کو ہر حال میں استعمال کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ موقع کھویا گیا تو بظاہر دوبارہ ایسا موقع ملنے والا نہیں۔ اس وقت شفٹ آف ایمفاسیس (shift of emphasis) کے طور پر جنگ پر زور دیا گیا، نہ کہ ابدی اصول کے طور پر۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom