عمومی تائید کا دور
اسلام کی دعوت، توحید کی دعوت تھی۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک عالمی دعوت تھی۔ اس حقیقت کو قرآن میں عالمی انذار (الفرقان:1) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مگر قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک دعوت ِ توحید کا مشن عمومی مخالفت کے ماحول میں کرنا پڑا۔اس بنا پر اس مشن کو مطلوب نشانے کے مطابق کرنا بے حد مشکل ہوگیا۔ آخر کار اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ اس منفی صورت حال کو ختم کیا جائے۔ تاکہ دعوتِ توحید کا مطلوب عمل کسی رکاوٹ کے بغیر انجام پاسکے۔
اس موافق صورت حال کو ظہور میں لانے کے لیے اللہ نے تاریخ میں ایک انقلابی عمل جاری کیا۔ یہ عمل ساتویں صدی میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ شروع ہوا، اور بیسویں صدی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب اہل ایمان کو صرف یہ کرنا ہے کہ ان پیدا شدہ مواقع (opportunities) کودعوت توحید کے لیے منصوبہ بند انداز میں پرامن طور پر استعمال کریں۔ اس عمل کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کو انفرادی امکان کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی عداوت کوئی مستقل حالت نہیں۔ انفرادی سطح پر تم آج بھی اس کا تجربہ کرسکتے ہو کہ ایک شخص جو بظاہر تم کو اپنا مخالف نظر آتا ہو، اس سے یک طرفہ (unilateral) حسن سلوک کرو تو عین ممکن ہے کہ وہ تمھارا دوست بن جائے۔ اس قسم کا تجربہ اسلام کے دور اول میں بار بار پیش آیا۔یعنی دعوت یا حسن سلوک کے نتیجے میں کل کا دشمن آج کا دوست بن گیا۔ مثلاً عمر ابن الخطاب، اور ہندہ زوجہ ابوسفیان، وغیرہ۔ لیکن اتنا ہی کافی نہ تھا۔ اسی کے ساتھ ضرورت تھی کہ اس کلچر کو دنیا میں عمومی سطح پر لایا جائے۔
اس واقعہ کا دوسرا پہلو حدیث میں پیشین گوئی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إن اللہ جل وعز لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد غیر اہل دین کے ذریعہ کرے گا۔
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، اس کا ایک منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ تھا کہ دنیا میں تائید کلچر کو وجود میں لانا۔ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں جس ڈائیکاٹومی (dichotomy) کا رواج تھا۔ وہ تھا، دوست اور دشمن کی ڈائیکاٹومی۔ اللہ نے انسانی تاریخ میں ایسے اسباب پیدا کیے کہ انسانوں کے درمیان ایک نئی ڈائیکاٹومی وجود میں آگئی۔ وہ تھی، دوست اور موید (supporter) کی ڈائیکاٹومی۔ یعنی جو لوگ دوست تھے، وہ تو دوست تھے۔ اور جو لوگ دوست نہ تھے، وہ عملاً موید (supporter) بن گیے۔
یہ تبدیلی اس طرح آئی کہ جمہوریت (democracy) اور ٹکنالوجی کے ذریعہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہر آدمی کا مفاد دوسرے آدمی کے ساتھ جڑ گیا۔ پولیٹکل لیڈر کا انٹرسٹ ووٹر سے، اور ووٹر کا انٹرسٹ پولیٹکل لیڈر سے۔ بزنس مین کا انٹرسٹ کسٹمر سے اور کسٹمر کا انٹرسٹ بزنس مین سے۔ ٹیچر کا انٹرسٹ اسٹودنٹس سے، اور اسٹوڈنٹس کا انٹرسٹ ٹیچر سے، وغیرہ۔
اس طرح دنیا میں ایک نیا باہمی انحصار کا کلچر (interdependent culture) وجود میں آیا۔ اب ایک نیا جبر (compulsion) پیدا ہوا۔ جس کے تحت لوگوں کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ دشمن کی اصطلاح میں سوچنا چھوڑ دیں۔ وہ تمام انسانوں کو یا تو دوست کے روپ میں دیکھیں یا موید کے روپ میں۔ اس کی ایک صورت وہ ہے جس کو موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔
اس کلچر کے نتیجے میں ایسا ہوا کہ ساری دنیا میں کھلے پن (openness) کا دور آگیا۔ اب اپنے اور غیر کا فرق ختم ہوگیا۔ مثلاً آپ اگر دعوت ِ توحید کا مشن چلا رہےہیں تو ضروری نہیں ہوگا کہ صرف اپنے وسائل کے دائرے میں اپنا مشن چلائیں، بلکہ ہر اسٹیج اور ہر پلیٹ فارم آپ کے لیے کھلا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ دوسرے لوگ انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کریں، تووہ آپ کو دعوت دیں گے کہ آپ وہاں آئیں، اور ان کے اسٹیج سے پرامن انداز میں اپنے مشن کا تعارف پیش کریں۔
قدیم زمانے میں مسلم حکومتوں میں غیر مسلموں پرجزیہ (tribute) عائد کیا گیا تھا۔ یہ زمانی حالات کے مطابق تھا۔ کچھ غیر مسلم مصنفین نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ یہ ایک امتیازی ٹیکس (discriminatory tax)ہے۔مسلم مصنفین نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ امتیازی ٹیکس نہیں ہے، بلکہ وہ حفاظتی ٹیکس (protective tax) ہے۔ تاہم اس طرح کے جوابات کے باوجود دوسرے حضرات کا اعتراض ختم نہیں ہوا۔ موجودہ زمانے میں جزیہ کے نام پر علاحدہ ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب نئے حالات کے مطابق، یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ٹیکس تو سب کے لیے ایک ہی ہو۔ ٹیکس کے معاملے میں مسلم اور غیرمسلم کا کوئی فرق نہ ہو۔ البتہ ایک اور اصول کو اختیار کرتے ہوئے، اس مقصد کو زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ زمانے میں ایک نیا تصور بڑے پیمانے پر وجود میں آیا ہے۔ اس کو آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔ آؤٹ سورسنگ کا طریقہ اس معاملہ کا نعم البدل ہے۔ آؤٹ سورسنگ کا طریقہ 1981میں امریکا سے شروع ہوا۔ موجودہ حالات میں یہ طریقہ تجارتی امور میں استعمال کیا جاتا ہے:
Outsourcing is a practice in which an individual or company performs tasks, provides services or manufactures products for another company.
موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ کا طریقہ زیادہ تر اقتصادی معاملے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے۔ اہل اسلام اس طریقہ کو دعوت کے لیے اس طرح استعمال کرسکتے ہیں کہ وہ دوسرے اداروں اور دوسروں کے اجتماعات کو اپنے پیغام کی پرامن اشاعت کے لیے بطوردعوہ اَپر چونٹی اَویل (avail)کریں۔