پیغمبر اسلام کا مشن
قرآن اصلاً قانون کی کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ حکمت (wisdom)کی کتاب ہے۔ قرآن اگر قانون کی کتاب ہوتی تو قرآن کی آیتوں کا صرف ترجمہ، قرآ ن کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتا۔ لیکن قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے تدبر (ص29:) ضروری ہے۔ قرآن کی آیتوں میں جو حکمت ہے، وہ صرف غور وفکر کے ذریعے سمجھی جاسکتی ہے۔ غور و فکر کے بغیر قرآن کے گہرے مفہوم تک پہنچنا ممکن نہیں۔
قرآن کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جوباتیں بذریعہ وحی بتائی گئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دو تھیں — الھدیٰ اور الدین (التوبہ:32)۔ یہ اسلوب قران کی تین آیتوں میں اختیار کیا گیا ہے۔ اس پر غور کرنےسے معلوم ہوتا ہے کہ الہدی سے مراد منہج (method) ہے۔ اور الدین سے مراد وہ دین جو تمام نبیوں (الشوریٰ:13)کو مشترک طور پر دیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اصلاً وہی تھا جو تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔ یعنی انسان کو اس دینِ اسلام سے باخبر کرنا جو انسان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا ضامن ہے۔ اس دینِ مشترک کی تعلیمات بنیادی طور پر تین ہیں — توحید، رسالت، آخرت۔توحید سے مراد اس دین کی وہ آئڈیالوجی ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے۔ رسالت سے مراد وہ مستند ذریعہ ہے جس کے ذریعے یہ دین انسانوں تک پہنچتا ہے۔ آخرت سے مراد انسان کا وہ ابدی انجام ہے، جو اس دین کو اختیار کرنے یا اختیار نہ کرنے کی بنا پر کسی انسان پر واجب ہوتا ہے۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہے۔ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں ایک ہی رہے گا۔ لیکن ہدیٰ (منہج یا طریقہ کار) کا تعلق حالات سے ہے۔ وہ حالات کےتحت بدلتا رہے گا۔
مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ وہ زمانہ قبائلی زمانہ (tribal age)تھا۔ قبائلی دور میں اختلاف کو طے کرنے کا ایک ہی ذریعہ تھا، اور وہ تلوار (sword) تھا۔ اس بنا پر اس زمانے میں اہل ایمان کو بطور دفاع قتال کے میدان میں فریق ثانی کا مقابلہ کرنا پڑا۔ لیکن اب دورِ سیف (age of sword)ختم ہوچکا ہے۔ اب ساری دنیا میں معاملات کو طے کرنے کی ایک ہی مسلّم بنیاد ہے، اور وہ پر امن طریقہ کار یا پرامن گفت و شنید (peaceful negotiation) کا طریقہ ہے۔ اس لیے اب اہل ایمان کو کسی سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ان کے لیے اعدادِ قوت (الانفال:60)کا انطباقی مفہوم (applied meaning) یہ ہے کہ وہ پر امن گفت و شنید اور دلیل کے اعتبار سے اپنے آپ کو تیار کریں۔ موجودہ زمانے میں تلوار کے اعتبار سے اپنے آپ کو تیار کرنا، ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو دنیا کی تمام قوموں نے جان لیا ہے۔ مثلاً دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے زمانے میں برطانیہ، جرمنی، فرانس اور جاپان باقاعدہ طور پر جنگ میں شریک تھے۔ لیکن جنگ کے بعد انھوں نے یہ دریافت کیا کہ اب چیزیں پر امن طریقہ کار سے ملتی ہیں، نہ کہ پرتشدد طریقہ کار سے۔ چناں چہ انھوں نے جنگ کے اس معاملہ میں یو ٹرن (u-turn)لے لیا۔ انھوں نے اپنی پالیسی امن کی بنیاد پر بنائی، نہ کہ پہلے کی طرح جنگ کی بنیاد پر۔
واقعہ کا یہ پہلو بتاتا ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانےمیں جو غزوات پیش آئے، وہ زمانی سبب (age factor) کی بنیاد پر پیش آئے، وہ ابدی معنوں میں اسلام کی تعلیم کا حصہ نہ تھے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کے دورِ اول میں جو جنگیں پیش آئیں، وہ اسلام کی تاریخ کا حصہ ہیں، نہ کہ اسلام کی ابدی تعلیمات کا حصہ۔ اب جنگ کے طریقہ کو پہلے کی طرح جاری رکھنا صرف خلافِ زمانہ حرکت (anachronism) کے ہم معنی ہوگا، نہ کہ واقعی معنوں میں کوئی مطلوب کام۔
مسلم فقہاء جس چیز کو نصبِ امامت کہتے ہیں، اس کا تعلق بھی حالات سے ہے، نہ کہ عقیدہ کی طرح ابدی تعلیمات سے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں نصبِ امامت کا واقعہ بطور وقتی ضرورت پیش آیا۔ اب اگر اس کو اسلام کی مستقل تعلیم کا حصہ قرار دیا جائے تو یہ دین کو تاریخ سے اخذ کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ جب کہ تاریخ حالات کی پیداوار ہوتی ہے، نہ کہ اصولی تعلیمات کی پیداوار۔دین کا ماخذ ابدی طور پر قرآن و سنت ہے، نہ کہ وہ چیز جو حالات کی نسبت سے وجود میں آتی ہے۔
کچھ مفکرین نے پیغمبر اسلام کے طریق کار کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے — مرحلۂ دعوت، مرحلۂ ہجرت، مرحلۂ جہاد۔ مگر یہ پیغمبر کے مشن کو تاریخ سے اخذ کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کا مشن صرف ایک تھا، اور وہ دعوت توحیدہے۔ بقیہ چیزیں جو پیغمبر کے مشن میں دکھائی دیتی ہیں، وہ حالات کے تحت پیدا ہونے والی تاریخ کا حصہ ہیں، نہ کہ اصل دینی تعلیمات کا حصہ۔
قرآن میں پیغمبروں کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے، نیز بائبل سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے، اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبروں کا مشن ہمیشہ ایک تھا۔ لیکن ان کی تاریخ مختلف تھی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مشن کا تصور ابدی عقیدہ سے بنتا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، تاریخ ایک دو طرفہ عمل (bilateral process) کے تحت وجود میں آتی ہے۔ تاریخ ہمیشہ اس اعتبار سے بنتی ہے کہ مخاطب (audience) کا ردعمل دعوت کے مقابلے میں کیا تھا۔
اسلام میں سیاسی اقتدار کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے، بلکہ عملی ضرورت سے ہے۔ اس کا مقصدـ شریعت کا نفاذ نہیں ہے۔ بلکہ وہی چیز ہے جس کو تمکین فی الارض(الحج:41)کہا گیا ہے، یعنی سماجی استحکام کا حصول۔ اسلام ایک پیس فل مشن ہے، اسلام کا مقصد یہ ہے کہ پرامن انداز میں خدائی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلایا جائے۔ یہ مقصد اس وقت حاصل ہوجاتا ہے، جب کہ سیاسی استحکام قائم ہو۔ خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے قائم ہوجائے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ہر حکومتی فارم کو یکساں طور پر قبول کیا گیا ہے۔ آپ قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں تو آپ کو حکومت کا کوئی واحد مطلق فارم نہیں ملے گا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ’’خلافت‘‘ کے چار مختلف فارم قائم ہوئے۔ اس کے بعد مسلم ملکوں میں خاندانی خلافت (dynasty) کا طریقہ رائج ہوگیا۔ اور اس کو تمام علماء نے تسلیم کرلیا۔ حتٰی کی آج بھی وہ رائج ہے۔ اس معاملے میں ایک اصول وہ ہےجو مکی دور کے اس واقعہ میں ملتا ہے، جب کہ صحابہ کی ایک جماعت نے پیغمبر اسلام کی اجازت سے حجاز سے حبش کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:لو خرجتم إلى أرض الحبشة؟ فإن بہا ملکا لا یظلم عندہ أحد، وہی - أرض صدق - حتى یجعل اللہ لکم فرجا مما أنتم فیہ(البدایۃ والنہایۃ، دارالفکر، 1986، 3/66)۔ تم لوگ حبش کے ملک میں چلے جاؤ۔ کیوں کہ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہےجس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ سچائی کی زمین ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تمھارے لیے گنجائش کی صورت پیدا کردے۔
رسول اللہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر غیر مسلم حکومت میں بھی اہل ایمان کو امن حاصل ہو تو وہ حکومت بھی ابل ایمان کے لیے قابلِ قبول حکومت ہوگی۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کا ایک وعظ ہےجس کا خلاصہ یہ ہے:’’میرے نزدیک آج کل کے جھگڑے اور فساد کی بنیاد یہ ہے کہ ہر شخص سواسیر بننا چاہتا ہے، کوئی شخص سیر بن کر رہنا نہیں چاہتا۔ اگر خود کو سیر اور دوسروں کو سوا سیر سمجھے کا جذبہ پیداہوجائے تو آج ہی یہ سارے جھگڑے اور فساد ختم ہوجائیں۔‘‘ (صحبتے با اہل دل)
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جھگڑوں کی جڑ لوگوں کا یہی جذبہ ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں سوچتا کہ بس چند دن میں کی زندگی تک یہ سارے جھگڑے ہیں، اسکے بعد انسان ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ پھر نہ تو کوئی سیر ہوگا، اور نہ کوئی سواسیر۔
آہ، انسان آج سیر بن کر رہنے پر راضی نہیں۔ حالاں کہ اس پر وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ سیر بن کر رہے گا اور نہ سوا سیر۔ اگر لوگ جان لیں کہ بالآخر وہ کچھ بھی نہ رہیں گے تووہ خود ہی سیر بننے پر راضی ہوجائیں اور پھر تمام جھگڑے بھی اچانک ختم ہوجائیں۔ (ڈائری، 1983)