تشخص کامسئلہ

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (۲۲ مئی ۱۹۹۲) میں مسٹر وسنتھا پاتریVasantha R. Patri)) کا ایک تجزیہ چھپا ہے۔ موضوع کے مطابق، اس کا عنوان ہے لاس اینجلیز کے فسادات، افسانہ بکھر گیا:

Los Angeles riots: Myth lies shattered

یہ مضمون امریکہ کے نسلی فسادات کے بارے میں ہے۔ اپریل- مئی ۱۹۹۲ میں یہ فسادات اولاً لاس اینجلیز میں ہوئے اور پھر کئی امریکی شہروں میں پھیل گئے۔ ان میں پچاس آدمی مر گئے۔ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ کروروں روپیے کی جائداد تباہ ہوئی، آخر کار فوج نے آکر ان کو دبا دیا۔

 ۱۶۱۹ء میں امریکہ میں افریقہ کی سیاہ فام نسل کے لوگ بطور زرعی غلام کے لائے گئے تھے۔ یہ لوگ یہاں بس گئے۔ ان کی اولادیں ہوئیں، مگر امریکہ میں انھیں برابر کے شہری حقوق حاصل نہ ہو سکے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جو ایک تعلیم یافتہ نیگرو تھے، ان کی قیادت میں ۱۹۶۰ میں برابری کے حقوق حاصل کرنے کی تحریک چلی۔ اب اگر چہ قانونی طور پر امریکہ کی سیاہ فام نسل کو برابر کے شہری حقوق دیے گئے ہیں، مگر عملاً یہ حق انھیں حاصل نہیں۔ چناں چہ ان کے درمیان مسلسل بے چینی موجود رہتی ہے۔ اسی کا ایک شدید اظہار پچھلے فساد میں اس وقت ہوا جب کہ لاس اینجلیز کے ایک سفید فام ڈرائیور نے ایک سیاہ فام ڈرائیور کو سٹرک پر مارا۔

 مضمون نگار نے اس سلسلے میں ایک نہایت اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے جو ہندستان کےانتہا پسندوں کے لیے بھی بے حد قابل توجہ ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ برابر یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر سیاہ فام نسل کو سفید فام نسل میں شامل کرے جس میں ہر آدمی سفید فام امریکی نقشہ میں ڈھل جائے۔ مگر حالیہ فساد نے اس نقطۂ نظر کی ناکامی کو ثابت کر دیا ہے۔ اب ضروری ہے کہ اس نقطۂ نظر میں تبدیلی پیدا کی جائے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ تہذیبی تنوع کی حوصلہ افزائی کی جائے اور نسلی امتیاز کا خاتمہ کر دیا جائے۔ یہی دنیا کی سب سے زیادہ دولت مند جمہوریت میں یک جہتی لانے کی واحد ضمانت ہے:

America has all along attempted a one-way assimilation, whereby everyone could be shaped into the Anglo-mould. From the latest manifestation of the failure of this approach a shift in emphasis can be considered. Encouraging cultural pluralism and active prevention of ethnic discrimination alone can ensure the integration of the world's richest democracy. (p.13)

مضمون نگار کا تبصرہ ہندستان کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا امریکہ کے لیے۔ اگر چہ دولت اور طاقت کے اعتبار سے دونوں ملکوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ تاہم جہاں تک مذکورہ مسائل کا تعلق ہے، وہ دونوں جگہ یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔

ہندستان میں بھی ایک طبقہ ہے جو اسی ڈھنگ پر سوچتا ہے جس طرح امریکہ کے سفید فام لوگ سوچتے ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک خود ساختہ بھارتیہ ماڈل ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے تمام فرقے اور گروہ اسی ماڈل میں اپنے آپ کو ڈھال لیں۔ اس نقطہ ٔنظر کو کچھ لوگ بھارتیہ کرن کا نام دیتے ہیں اور کچھ لوگ اس کو انڈینائزیشن کہتے ہیں۔

 مگر یہ ہندستان میں بھی اسی طرح نا قابلِ عمل ہے جس طرح وہ امریکہ میں ناقابل عمل ہے۔ اس قسم کے ہر نظریےکا مطلب تاریخی حقیقتوں سے لڑنا ہے۔ اور تاریخی حقیقتوں سے لڑنا ایسا ہی ہے جیسےپتھر کی چٹان سے اپنا سر ٹکرانا اور پھر خود اپنا سر توڑ لینا۔

مضمون نگار نے بجا طور پر امریکی مسئلے کا حل کلچرل پلور لزم کو بتایا ہے۔ یعنی ملک کے ہر تہذیبی گروہ کو اپنے تشخص پر قائم رہنے کا موقع دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا۔یہی ہندستان کے مسئلے کا حل بھی ہے۔ ہندستان ایک بڑا ملک ہے۔ یہاں مختلف تہذیبی گروہ آباد ہیں۔ ان گروہوں کے تہذیبی تشخص کو مٹانے کی کوشش ملک میں فساد تو بر پا کر سکتی ہے۔ مگر وہ خود تشخص کوختم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

 اس لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ ہر ایک کے انفرادی تشخص کو تسلیم کیا جائے۔ ہندستان کو ایک باغ کی حیثیت دی جائے جہاں طرح طرح کے پھول اور پودے دکھائی دے رہے ہوں نہ کہ صرف ایک پھول اور صرف ایک پودا۔ ہندستانی سماج کی کامیاب تشکیل صرف تنوع کے اصول پر ہو سکتی ہے، وہ یکسانیت کے اصول پر کبھی نہیں ہو سکتی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom