خبر نامہ اسلامی مرکز

۱۔ آل انڈیا ریڈیو (نیشنل چینل) سے صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر ۱۷ جون ۱۹۹۲ کو نشر کی گئی۔ یہ "فکر مشرق" کے مستقل پروگرام کے تحت تھی اور اس کا عنوان تھا: مولاناروم___ ایک تعارف۔

۲۔مدر اس کے ایک تعلیم یافتہ کر سچین ڈاکٹر و لم پوری جان ایڈوکیٹ تقابلی مذہب پر مقالہ لکھ ر ہے ہیں۔ اسلام کے بارے میں ان کے کچھ سوالات تھے۔ اس سلسلے میں وہ ۷ اگست ۱۹۹۲ کو صدر اسلامی مرکز سے ملے اور اپنے سوالات کے جوابات معلوم کیے۔ اللہ کے فضل سے وہ مطمئن ہو گئے۔

۳۔گودھرا کے اقبال حسین غلام نبی صاحب نے مطلع کیا ہے کہ وہ الرسالہ کے مضامین کا ترجمہ گجراتی زبان میں کررہے ہیں۔ اور ان کو گجراتی اخبارات میں شائع کر رہے ہیں۔

۴۔اخبار نئی دنیا کے نمائندہ جناب صالح عبد اللہ صاحب نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا موضوع بابری مسجد - رام جنم بھومی کا مسئلہ تھا۔ یہ انٹرو یونئی دنیا کے شمارہ ۱۳-۷ اگست ۱۹۹۲ میں شائع ہوا ہے۔

۵۔ایک صاحب لکھتے ہیں: الرسالہ ایک پرچہ نہیں بلکہ دین اسلام کی تبلیغ کا ایک شاندار ذریعہ ہے۔ آپ کی حیثیت ایک مبلغ کی ہے جو زمانۂ حاضر میں قرآن کی روشنی میں زندگی کے پہلوؤں کو اجاگر کر کے صاف ستھرے اسلام کو لوگوں کے روبرو پیش کر رہا ہے (مسعود ادیب،ر تلام)

۶۔ایک خاتون لکھتی ہیں، کچھ عرصےسے الرسالہ کا مطالعہ کر رہی ہوں۔ پرانے شمارے جتنے مل سکے جمع کیے ہیں اور بڑی بے صبری سے ان کو ختم کر رہی ہوں۔ اس تشنہ روح کو برسوں سے جس چیز کی تلاش تھی وہ راستہ آپ نے دکھایا ہے۔ آپ نے اسلام کا صحیح مزاج سمجھ کر جس انداز میں مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے وہ قابلِ قدر ہے۔ آپ کے مضامین پڑھ کر روح کو عجیب سکون محسوس ہوتا ہے۔ دل میں گھر کر جاتی ہیں آپ کی باتیں۔ اس مشن کو پورا کرنے کے لیے مجھ سے جو کچھ بھی ہو سکے ضرور کروں گی۔ پانچ پر چے کی ایجنسی بھی چلانے کی کوشش کر رہی ہوں(ڈاکٹر انیس فاطمہ، جالنہ)

۷۔نمبر۱،  نظام الدین ویسٹ مارکٹ (نئی دہلی)میں الرسالہ بک سنٹر کے نام سے ایک کتابی مرکز قائم کیا گیا ہے۔ یہاں الرسالہ مطبوعات کے علاوہ مختلف ملکی اور غیرملکی اداروں کی چھپی ہوئی اسلامی کتا بیں فراہم کرنے کا انتظام ہے۔ یہاں سے اردو، عربی، انگریزی، ہندی زبانوں میں اسلامی کتا بیں دستیاب ہیں۔

۸۔اللہ کے فضل سے الرسالہ کا مشن روز بروز پھیل رہا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اس سےمتاثر افراد اسی انداز پر پرچے نکال رہے ہیں یا اسی انداز میں کتا بیں شائع کر رہے ہیں۔ انھیں میں سے ایک مولانا عبد الرؤوف گلاب (سرینگر کشمیر) ہیں۔ انھوں نے جنت اور اہل جنت اور جہنم اور اہل جہنم کے نام سے کتابیں شائع کی ہیں۔ ان کتابوں میں انذار و تبشیر کے انداز میں دعوت کو پیش کیا گیا ہے۔

۹۔کتابوں کا ایک سٹ تیار کیا جارہا ہے۔ ان شاء اللہ وہ تین الگ الگ کتاب کی صورت میں تین جلدوں میں شائع ہو گا۔ پہلی جلد انبیاء سابقین کے بارے میں۔ دوسری جلد پیغمبر آخر الزمان کے بارے میں اور تیسری جلد صحابہ کرام کے بارے میں۔

۱۰۔ایک صاحب لکھتے ہیں:میں گزشتہ سال سے الرسالہ کا قاری ہوں۔ اور مسلسل استفادہ حاصل کر رہا ہوں۔ اور بلاشبہ یہ موجودہ تنزل کے دور میں نہایت عمدہ اقدام ہے۔ اس کا قاری اسے پڑھ کر اپنی بیتی ہوئی زندگی کا محاسبہ کرتا ہے کہ اس سے کیا صحیح اور کیا غلط اقدامات سرزد ہوئے۔ اور میں نے خود بہت سے نازک مواقع پر مثبت اقدامات اور طرز فکر کو ترجیح دی ہے (محمد طیب خان، رامپور)

 ۱۱۔الرسالہ کا مستقل قاری ہوں۔ پڑھ کر تسلی نہیں آتی ہے۔ ایک پرچہ وصول کر کے دوسرے کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ الرسالہ ایک سدا بہار تحریری غذا ہے۔ لوگوں کو اس سے لاکھ اختلاف سہی، مگر اس رسالے کی افادیت سے انکار تاریخ کی بدترین غلطی ہوگی۔ ان شاء اللہ آئندہ مفصل لکھوں گا۔(غلام  حسن،ککروسہ)

۱۲۔ایک صاحب لکھتے ہیں: اتفا قاًآپ کا رسالہ الرسالہ (دسمبر ۱۹۹) میں نے پڑھا۔ نہایت خوبصورت اور بہت اچھا ہے۔ اس کی تعریف لفظوں میں نہیں کی جاسکتی۔ اس کو پڑھ کر دل کو بہت سکون اور اطمینان ملا۔ اس کو پڑھ کا دل کا کمل کھل اٹھا ہے۔ آپ نے حدیث اور دین و دنیا پر بہت اچھی معلومات دی ہیں۔ کاش مجھے اس کے بارے میں پہلے سے معلوم ہوتا۔ اس میں آدمی کی زندگی بدل ڈالنے کی طاقت ہے۔(نثار احمد خاں، بلڈانہ)

۱۳۔"علماء کارول"نامی ایک کتابچہ تیار ہوا ہے۔ وہ ان شاء اللہ الرسالہ میں بطور نمبر شائع کیا جائے گا۔ اس میں تنقیدی جائزہ بھی ہے اور علماء کے صحیح رول کی نشاندہی بھی۔

۱۴۔مسٹر ایس شفیع احمد (516001  Cuddapah) اپنے خط میں لکھتے ہیں

I happened to go through your much esteemed monthly magazine Al- Risala and I finished its reading in one sitting as the contents therein were so thought provoking and enlightening that my words are too poor to express my deep appreciation for the unforgettable services being rendered by a great reformer like you in bringing about healthy transformation in the attitude and outlook of the Muslim community which seems to have lost a clear sense of direction and vision of their future in the face of rapidly changing global situation.

۱۵۔۱۷اگست ۱۹۹۲ کو انڈیا انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک سیمینار تھا۔ اس سیمینار کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اس کا عنوان تھا: امپروونگ ہندو مسلم ریلیشنز (Improving Hindu-Muslim relations) اس میں دہلی کے اعلی تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہر آدمی اپنی فطرت کے اعتبار سے انسانیت دوست اور امن پسند ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کو ان کی فطرت پر رہنے دیا جائے تو عام حالات میں وہ اچھی طرح ہی رہیں گے۔ انسانی تعلقات میں بگاڑ فطرت سے ہٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے اچھا سماج بنانے کے لیے ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ بگاڑنے والے عنصر کو ہٹا کر یہ موقع پیدا کر دیں کہ لوگ اپنی اصل فطرت پر زندگی گزار نے لگیں۔

۱۶۔کلکتہ سے مسز نذیر لکھتی ہیں: مجھے الرسالہ کا ایک پر انا پرچہ ملا۔ پڑھ کر بے انتہا مسرت ہوئی۔ اس کے بعد رسالے کی خریدار بن گئی۔ اور ساتھ ساتھ اپنی بیٹی رفعت جاوید کے نام سے رسالہ جاری کروا دیا۔ الرسالہ حقیقت تک پہنچنے کا سیدھا راستہ بتاتا ہے وہ حق کی پہچان کر اتا ہے اور انسانوں کا بھلا چاہتا ہے۔ اس کی سادہ اور صاف تحریر دل میں اتر جاتی ہے۔ اس رسالے میں قرآن و حدیث دنیا و آخرت کی حقیقتیں سبق آموز واقعات اور با اصول زندگی گزارنے کے بہترین نسخے ہیں۔ اس کے مضمون اپنے درس میں خواتین کو سناتی ہوں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom