قدیم و جدید
ابتدائی دور میں عربوں نے عملی سائنس کو بہت کچھ ترقی دی۔ مثال کے طور پر یہ عرب ہی تھے جنوں نے ساتویں صدی عیسوی میں سب سے پہلے قابل استعمال گھڑی تیار کی۔ جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں اعتراف کیا ہے کہ اُس زمانے میں دمشق میں ایک مشہور گھڑی موجود تھی، اور اسی طرح ہارون رشید کے زمانے کے بغداد میں
Damascus had a famous clock and so did the Baghdad of Harun-al- Rashid's day. (p.261).
گھڑی کو مسلمانوں نے شروع کیا۔ مگر اس کو ترقی یافتہ صنعت بنانے کا تمام کام مغرب میں ہوا۔ آج یہ حال ہے کہ صرف گھڑیوں کی خریداری میں مسلم ملکوں کے کروروں ڈالر ہر سال مغربی دنیا میں پہونچ رہے ہیں۔ یہی معاملہ دوسری تمام جدید صنعتوں کا ہے۔ ان صنعتوں کا آغاز کرنے والے مسلمان تھے، مگر بعد کو وہ خود تو باہمی جھگڑوں میں پڑگئے اور مغرب ان کی چیزوں کو لے کر ساری دنیا پر چھا گیا۔
مسلمانوں میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو مذکورہ ماضی پر فخر کرتے ہیں۔ مگر ان میں ایسا کوئی شخص نظرنہیں آتا جو حال میں دوبارہ وہ کام کرنے کا پیغام دے جو ماضی میں قدیم مسلمانوں نے کیا تھا۔ یہ محض فخرہے، اور فخر کبھی عمل کا قائم مقام نہیں ہو سکتا۔
اسٹیم پاور سے چلنے والے جہاز کے وجود میں آنے سے پہلے تک مسلمان سمندری جہاز رانی میں دنیا سے آگے تھے۔ حتی کہ ایک مورخ کے الفاظ میں، انھوں نے میڈیٹرینین سمندر کو عرب جھیل بنا دیا تھا۔ مگر آج اسٹیم شپ کے دور میں مسلمانوں کی کوئی جہاز راں کمپنی نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بعد کو اپنے دور زوال میں پہنچنے کی وجہ سے مسلمانوں نے یہ صلاحیت کھو دی کہ وہ نئی چیزوں کو سیکھیں اور نئی تحقیقات پر دھیان دیں۔ انھوں نے ہر معاملہ میں "قدیم "سے جڑے رہنے کو مذہب سمجھا اور "جدید" سے وابستہ ہونے کو لامذہبیت سمجھنے لگے۔
امور دین (عقائد، عبادات، اخلاق کے معاملے میں ہم کو بلا شبہ پیچھے کی طرف دیکھنا ہے۔ مگر امور دنیا کے معاملے میں ہم کو آگے کی طرف نظر رکھنا ہے۔ موجودہ مسلمان اس فرق کو نہ سمجھ سکے یہی وجہ ہے کہ وہ زمانہ ٔحاضر میں ایک پچھڑی ہوئی قوم بن گئے۔