دعا اور اعتراف
تاریخ اسلام کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو مواخاۃ کہا جاتا ہے۔ مکہ کے مسلمان جب مہاجر کی حیثیت سے مدینہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ دو دو شخص اللہ کی راہ میں بھائی بھائی بن جاؤ (تآخوافى الله أخوين أخوين) اس ہدایت کے مطابق ہر انصاری نے ایک مہاجر کو اپنا بھائی بنالیا۔ انصار نے اپنے تمام اثاثے کو تقسیم کرکے آدھا خو د لیا اور آدھا اپنے مہاجر بھائی کو دےدیا۔ اس مواخاة کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ اس معاملےمیں انصار نے یک طرفہ طور پر جس کمالِ ایثار کا ثبوت دیا اس کی کوئی دوسری مثال پوری معلوم تاریخ میں نہیں ملتی۔ انصار کے اعلیٰ سلوک سے خود مہاجرین بے حد متاثر تھے:
قال الامام احمد حدثنا يزيد اخبرنا حميد، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ الْمُهَاجِرُونَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا رَأَيْنَا مِثْلَ قَوْمٍ قَدِمْنَا عَلَيْهِمْ أَحْسَنَ مُوَاسَاةً فِي قَلِيلٍ، وَلَا أَحْسَنَ بَذْلًا فِي كَثِيرٍ، لَقَدْ كَفَوْنَا الْمَئُونَةَ، وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَأِ، حَتَّى لَقَدْ حَسِبْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ قَالَ: " لَا، مَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ، وَدَعَوْتُمُ اللهَ لَهُمْ " (مسند احمد: 13075)
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ مہاجرین نے کہا کہ اے خدا کے رسول، جس قوم کے یہاں ہم آئے ہیں، ان سے بہتر قوم ہم نے نہیں دیکھی۔ وہ کم میں بہترین ہمدردی کرنے والے ہیں اور زیادہ میں بہترین خرچ کرنے والے ہیں۔ وہ محنت میں ہماری طرف سے کافی ہو گئے اور پیداوار میں ہم کو شریک کر لیا۔ حتی کہ ہم کو ڈر ہے کہ سارا اجر انھیں کو نہ مل جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، جب تک تم ان کی تعریف کرو اور اللہ سے ان کے لیے دعا کرتے رہو (سیرۃ ابن کثیر ۲/۳۲۸)
اس حدیث سے نہایت اہم اسلامی اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ زید کو بکر سے کچھ ملے مگر زید کے پاس کوئی مادی چیز لوٹانے کے لیے نہ ہو تو وہ کیا کرے۔ ایسی حالت میں زید کو چاہیے کہ وہ بکر کےعطیے کا کھلے دل سے اعتراف کرے۔ اعتراف کا یہ احساس اتنا زیادہ گہرا ہو کہ زید کے دل سے بکر کے لیے دعائیں نکلنے لگیں ___ مال والے کے پاس دینے کے لیے اگر مال ہے، تو بے مال والے کے پاس بھی دینے کے لیے ایک چیز موجود ہے، اور وہ دعا اور اعتراف ہے۔ اور بلاشبہ دعا اور اعتراف کی اہمیت کسی مادی عطیے سے کم نہیں۔