تاریخ کا صفحہ
اسپین میں تقریباً ۸۰۰ سال تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی۔ ۱۴۹۲ء میں اس حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ خاتمے کے وقت بھی مسلمان اپنے حریف اسپینیوں کے مقابلے میں ہر اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ مسیحیوں کی فتح اور مسلمانوں کی شکست کا بنیادی سبب یہ تھا کہ مسیحیوں نے متحد ہو کر اپنی طاقت بہت زیادہ بڑھالی اور مسلمانوں نے آپس کے اختلاف کی وجہ سے اپنے آپ کو بے حد کمزور کر لیا۔
مسلم دور حکومت میں بھی اسپین کا ایک نسبتاً چھوٹا حصہ مسیحیوں کے پاس تھا۔ اس کو اپنا سیاسی مرکز بناکر وہ مسلم حکومت کے خلاف کارروائی کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر آخری دور میں اپنا رقبہ کافی بڑھا لیا تھا اور مسلمانوں کے پاس صرف غرناطہ (Granada) رہ گیا تھا۔
دور آخر کا ایک مسلم حکمران سلطان ابو الحسن تھا،مسیحی حکمراں فردی نند (Ferdinand II) نے سلطان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کو خراج دینا منظور کرے۔ سلطان ابو الحسن نہایت بہادر تھا۔ اس نے فردی نند کو جواب میں لکھا کہ "غرناطہ کے دار الضرب میں اب سونے کے سکوں کے بجائے فولادی تلواریں تیار کی جارہی ہیں تاکہ مسیحیوں کی گردنیں ماری جائیں۔" اس کے بعد دونوں کے درمیان کئی مسلح تصادم ہوئے۔ آخر کار ۸۸۷ھ میں لوشہ کے مقام پر دونوں کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی۔ اس میں فردی نند کی فوجوں کو مکمل شکست اور سلطان ابو الحسن کی فوجوں کو مکمل فتح حاصل ہوئی۔
اس کے بعد فردی نند نے از سر نو اپنے کو تیار کرنا شروع کیا۔ اس وقت مسیحی اسپین میں دو حکومتیں تھیں۔ ایک اراغون (Aragon) جہاں فردی نند کی حکومت تھی۔ دوسرا قسطلہ (Castile) جہاں ملکہ از بیلاIsabella I))تخت کی مالک تھی، فردی نند نے یہ دانش مندی کی کہ از بیلا کو راضی کر کے ۱۴۶۹ء میں اس سے نکاح کر لیا۔ اس طرح دونوں کو ملاکر ایک بڑی مسیحی سلطنت وجود میں آگئی۔
ایک طرف مسیحی دنیا میں یہ اتحادی واقعہ ہوا۔ دوسری طرف یہ اختلافی واقعہ پیش آیا کہ سلطان ابوالحسن کے لڑکے ابو عبد اللہ محمد نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کر دی، وہ سلطنت غرناطہ کے ایک حصہ پر قبضہ کر کے بیٹھ گیا۔ اب سلطان ابوالحسن کی حکومت صرف چار ہزار مربع میل پرمشتمل ہو کر رہ گئی۔ دوسری طرف فردی نند کی سلطنت کا رقبہ بڑھ کر سوالاکھ مربع میل ہو گیا۔ اس صدمے کے بعد سلطان ابوالحسن پر فالج کا حملہ ہوا اور اس کی بینائی بھی ختم ہو گئی۔
سلطان ابو الحسن اس کے بعد غرناطہ کے تخت سے دستبردار ہو گیا اور اپنی جگہ اپنے بھائی ابو عبد الله زغل کو سلطان مقرر کیا۔ اس کے بعد ایک سازش کے تحت ابو عبد الله زغل کو سلطنت سے ہٹا دیا گیا اور ابو عبد الله محمد پورے سلطنت غرناطہ کا حکمران بن گیا۔ مگر اس کے اندر اپنے باپ والی دانش مندی موجود نہ تھی۔ چند مقابلوں میں اس نے مسیحی حکمران سے شکست کھائی۔
آخری مرحلے میں غرناطہ کے قلعہ کو مسیحی فوجوں نے گھیر لیا۔ ابو عبد اللہ محمد جس نے اپنے والداور اپنے چچا کے مقابلے میں بہادری دکھائی تھی وہ مسیحی فوجوں کے مقابلے میں صرف بزدل ثابت ہوا۔ آخر کار۳ جنوری ۴۹۲ ا کو اس نے قلعہ اور غرناطہ کی دستبرداری کے معاہدہ پر دستخط کر دیے۔ اس معاہدہ پر ایک طرف فاتح فردی نند نے اپنا دستخط ثبت کیا۔ اور دوسری طرف مفتوح ابو عبد اللہ محمد نے۔
ایک مورخ نے اسپین کے مذکورہ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غرناطہ کے آخری مسلم حکمراں سلطان ابوالحسن نے فردی نند اور از بیلا کو شکست دی تھی مگر اس کے اپنے لڑکے ابوعبداللہ نے اس کے خلاف بغاوت کر دی جو آخر کار اس کے باپ کے زوال کا سبب بنی۔
The last ruler of Granada, Sultan Abul-Hasan, defeated Ferdinand II (1452-1516) and Queen Isabella, but his own son, Abu Abdullah, made a coup against his father which resulted to the downfall of his father.
اس دنیا میں باہمی اتحاد سب سے بڑی طاقت ہے اور باہمی اختلاف سب سے بڑی کمزوری یہ بلاشبہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے۔