حفاظتی ڈھال

قرآن (الانبیا ء۳۲) میں فرمایا گیا ہے کہ___ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا (وجعلنا السماء سقفاً محفوظا) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان (بالائی فضا)کو اللہ تعالی نے اپنی رحمت و قدرت سے اس طرح بنایا ہے کہ وہ انسان کے لیے ضرر رساں چیزوں سے حفاظت کا ذریعہ بن جائے۔ اس نظام خداوندی کے بے شمار پہلو ہیں۔ تاہم اس کا ایک جزء غالباً وہ فضائی گیس ہے جس کو او زون (ozone) کہا جاتا ہے۔

سورج ہماری زمین سے نوکر ور تیس لاکھ میل دور ہے۔ وہ اتنا بڑا ہے کہ اگر اس کے مادے کو تقسیم کیا جائے تو اس سے ہماری زمین جیسے بارہ لاکھ کرّے بن جائیں گے۔ یہ سورج ہمارے لیے روشنی اور حرارت کا ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں اس کا موجودہ فاصلہ بے حد اہم ہے، اگر زمین سے سورج کا فاصلہ موجودہ فاصلےسے کم ہوتا تو اس سے آنے والی روشنی اور حرارت اتنی شدید ہوتی کہ زمین پر کسی ذی حیات کے لیے زندہ رہنا ہی ناممکن ہو جائے۔

سورج کی جو شعا عیں زمین پر آتی ہیں ان میں بعض نہایت مضر اجزاءہوتے ہیں۔ مثلاً ان آفتابی شعاعوں کا ایک جزء وہ ہے جس کو الٹرا وائیلٹ شعاعیں (ultraviolet rays) کہا جاتا ہے۔ یہ شعاعیں ذی حیات مخلوق کے لیے سخت مضر ہیں۔ ان سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور ان کی زیادتی انسان اور حیوان کو ہلاک کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔

 الٹرا وائیلٹ شعاعیں مسلسل سورج سے نکل کر زمین کی طرف آرہی ہیں۔ اس کے با وجود انسان اور حیوان کیوں زمین پر زندہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کے اوپر کئی سو میل کی جو فضا (atmosphere) ہے۔ اس کی مختلف تہوں میں سے ایک تہ وہ ہے جو اوزون گیس پرمشتمل ہے۔

 یہ اوزون ایک قسم کی آکسیجن گیس ہے۔ اس کے مخصوص مالیکولر ڈھانچے کی وجہ سے اس میں یہ صفت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ اوپر سے آنے والی الٹرا وائیلٹ شعاعوں کو جذب کر لے اور ان کو زمین کی سطح تک پہنچنے نہ دے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، یہی اوزون گیس کی تہ ہے جو انسان کو الٹراوائیلٹ شعاعوں کے مضر اثرات سے بچائے ہوئے ہے۔

قرآن کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے اوپر بالائی فضا میں ایک محفوظ چھت قائم کی۔ بالائی فضا ((atmosphereکے بارے میں موجودہ زمانےمیں جو سائنسی تحقیقات ہوئی ہیں وہ قرآن کے اس بیان کے حق میں ایک علمی تائید کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ فضا کے اوپر اوزون گیس کی ایک موٹی تہہ ہے جو کرہ ٔارض کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ یہ فضائی چھتری انسان کے لیے ایک حفاظتی ڈھال کا کام کر رہی ہے۔ اس حفاظتی ڈھال کے بغیر انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہ ہوتا کہ وہ زمین کے اوپر آباد ہو اور یہاں تمدن کی تعمیر کرے۔

 تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بالائی فضا میں ۲۰ کیلو میٹر اور ۵۰ کیلومیٹر کی بلندی کے درمیان موجود گیسوں میں قدرتی طور پر ایک رد عمل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بننے والے نئے قسم کے مالیکیول سے ایک گیس تیار ہوتی ہے جس کو اوزون کہا جاتا ہے۔ یہ اوزون زمین کے چاروں طرف فضا میں پھیلی ہوئی ہے۔ وہ الٹراوائیلیٹ شعاعوں کو جذب کر لیتی ہے اور اس طرح وہ زمین کےاوپر زندگی کے لیے ایک اہم حفاظتی ڈھال کا کام کرتی ہے:

In the region between about 20 and 50 kilometers the monatomic oxygen reacts with 02 to form ozone (03). The resulting worldwide layer of ozone, although its relative concentration is less than 1/10,000, is sufficient to absorb ultraviolet radiation and thereby serve as a vital protective shield for life on earth. (2/322-23)

موجودہ زمانے میں صنعتی تمدن نے انسان کے لیے جو نئے مسائل پیدا کیے ہیں، ان میں سے ایک خطر ناک مسئلہ یہ ہے کہ جدید صنعتوں کی پیدا کر دہ بعض گیسوں کی وجہ سے اوزون کی تہہ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اب یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ فضا کی اوزون میں رخنہ پڑنے سے، کم از کم جزئی طور پر الٹراوائیلٹ شعاعوں کو زمین تک پہنچنے کا راستہ مل جائے اور پھر انسان کے لیے طرح طرح کے نا قابل حل مسائل پیدا ہو جائیں۔

موجودہ زمانےمیں اس پر باقاعدہ ریسرچ کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں کافی لٹریچر شائع کیا گیا ہے۔ ٹائم میگزین  (۷افروری ۱۹۹۲) نے اس مسئلے کو اپنی کور اسٹوری بنایا ہے۔ اس کا عنوان ہے____ ختم ہوتی ہوئی اوزون، خطرہ قریب آرہا ہے:

Vanishing ozone: The danger comes closer.

 زندگی کے لیے یہ ضروری گیس جس کی بربادی کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے، وہ آکسیجن کی ایک قسم ہے جس کے مالیکول میں تین ایٹم ہوتے ہیں جب کہ عام آکسیجن کے مالیکیول میں دو ایٹم ہوتے ہیں۔ ڈھانچے میں اس سادہ تبدیلی نے اوزون میں یہ صلاحیت پیدا کر دی ہے کہ وہ الٹراوائیلٹ شعاعوں کو جذب کر سکے:

The vital gas being destroyed is a form of oxygen in which the molecules have three atoms instead of the normal two. That simple structure enables ozone to absorb ultraviolet radiation. (p.41)

سائنسی نقطۂ نظر سے مالیکیول کے ایٹمی ڈھانچے میں یہ تبدیلی ہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر اوزون اس صفت کی حامل گیس بن گئی ہے کہ وہ سورج سے آنے والی مضر گیس کو اپنے اندر جذب کرلے اور اس کو زمین کی سطح تک پہنچنے نہ دے۔ چناں چہ کہا جاتا ہے کہ بالائی فضا میں اوزون کی یہ گیسی چادر ہم کو مسلسل طور پر الٹرا وائیلٹ شعاعوں کے مہلک اثرات سے بچائے ہوئے ہے۔

 مگر کوئی عقلی یا سائنسی دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے موجود نہیں کہ ایٹم کی تعداد میں تبدیلی بذاتِ خود اپنے اندر اس قسم کی انوکھی اور مفید صلاحیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اس آسمانی آگ سے بچانے والا خدا ہے۔ ظاہری طور پر مذکورہ تبدیلی اس لیے پیدا کی گئی تاکہ آدمی اس کو دیکھ کر ٹھٹکے۔ وہ اس ظاہری واقعے کو دیکھ کر اندرونی حقیقت تک پہنچ سکے۔

ایک طرف فطرت کے نظام میں اوزون گیس کا ہونا، دوسری طرف جدید صنعتی نظام کے تحت اوزون گیس کی تباہی، یہ دونوں واقعات بے حد سبق آموز ہیں، اور ان میں سوچنےوالوں کے لیے عظیم نشانی پائی جاتی ہے۔

بالائی فضا میں اوزون گیس کی موٹی تہ کا پایا جانا ظاہر کرتا ہے کہ جس ہستی نے دنیا کا نظام بنایا، اس کو پیشگی طور پر یہ معلوم تھا کہ زمین پر بسنے والے انسانوں کی کیا ضرور تیں ہوں گی۔ اس نے تجربہ سے پہلے یہ جانا کہ سورج کی شعاعوں میں افادیت کے ساتھ نقصان کے پہلو بھی موجود ہیں۔ اس نے افادیت کے پہلو کو مستحکم کیا اور نقصان والے پہلو سے بچاؤ کا انتظام کر دیا تا کہ انسان جب زمین پر بسے تو وہ سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے محفوظ رہے، سورج کی صرف مفید شعاعیں انسانوں تک پہنچ سکیں۔

اب دوسرے رخ کو دیکھیےجو بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ انسان نے ساٹھ سال پہلے وہ چیز دریافت کی جس کو ایر کنڈیشننگ کہا جاتا ہے۔ اس دریافت نے انسان کو غیر معمولی طور پر راحت کا سامان دیا۔ ایر کنڈیشنڈ مکان اور دفاتر اور مختلف بلڈنگیں ماڈرن زندگی کالازمی حصہ ہیں۔ جب یہ صنعت دریافت ہوئی تو وہ خیر ہی خیر نظر آتی تھی، مگر جدید تحقیقات نے بتایا کہ اس خیر میں شربھی چھپا ہوا ہے۔

موجودہ ایر کنڈیشننگ کا سسٹم سی ایف سی پر مبنی سسٹم (cfc-based system) ہے۔ سی ایف سی ٹکنالوجی آج انسان کے لیے زبر دست خطرہ بن گئی ہے۔ سی ایف سے مراد کلور و فلور و کاربن  (chlorofluorocarbons) ہے۔ یہ ایک کیمیکل ہے جو ایر کنڈیشننگ کے سامانوں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کیمیکل کو تیار کرنے کے لیے جو کار خانے بنائے گئے ہیں وہ اس کی تیاری کے دوران ایک ضمنی پیداوار (by-product) تیار کرتے ہیں جس کو سی آئی او یا کلورین مونو آکسائڈ (chlorine monoxide) کہا جاتا ہے۔ یہی سی آئی او کا مادہ ہے جو دراصل اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ حتی کہ اس نے بالائی فضا میں ایک بڑا سوراخ پیدا کر دیا ہے جس سے سورج کی مذکورہ مضر شعا عیں زمین پر آنا شروع ہوگئی ہیں۔

 اب امریکہ وغیرہ میں بہت بڑے پیمانہ پر ریسرچ ہو رہی ہے تاکہ کوئی ایسا متبادل مادہ دریافت کیا جائے جس کے ذریعے مذکورہ مضر کیمیکل پیدا کیے بغیر ایر کنڈیشننگ کے سامان بنائے جاسکیں۔

اب یہاں دو نمونے ہیں۔ ایک فطرت (نیچر) کا۔ دوسرے انسانی صنعت کا۔ فطرت کا نمونہ بتاتاہے کہ اس میں پیشگی طور پر یہ انتظام موجود تھا کہ سورج کی مضر شعا عیں زمین کی سطح تک نہ پہنچیں۔ تا کہ انسان محفوظ طور پر زمین پر آباد ہو سکے۔ دوسری طرف صنعتی دور کے صنعت کاروں کو پیشگی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی ایر کنڈیشننگ کی صنعت فطرت کے قیمتی توازن کو توڑ دے گی اور انسان کےلیے سخت نا موافق صورت حال پیدا ہو جائے گی۔

 یہ صورت حال اس بات کا ثبوت ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کی منصوبہ بندی کے پیچھے ایک بالا تر خدائی ذہن کی کار فرمائی ہے۔ اگر یہاں ایسے ذہن کی کار فرمائی نہ ہوتی تو فطرت کے نظام میں بھی بار بار اسی قسم کے خلا اور نقائص ظاہر ہوتے جو انسانی صنعت میں ظاہر ہورہے ہیں۔

یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف قرآن میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے: بڑا بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتا ہے۔ اور وہ زبر دست ہے، بخشنے والا ہے۔ جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے۔ تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے۔ پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو۔ نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آ جائے گی (الملک: ۱-۴)

لاصۂ  کلام

اللہ تعالیٰ نے سورج پیدا کیا، سورج کی پیدائش زمین پر انسان کی آبادی سے بہت پہلے ہوئی۔ مگر اللہ تعالٰی کو پیشگی طور پر یہ معلوم تھا کہ سورج کی شعاعوں کا ایک جزء (الٹرا وائیلٹ) انسان کے لیے مضر ہو گا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے پیشگی طور پر بالائی فضا میں ایک محکم حفاظتی انتظام کر دیا جو انسان کو اس مضر شعاع سے بچاتا رہے۔

دوسری طرف انسانی انجینیروں اور سائنس دانوں نے زمین پر ایک انڈسٹری قائم کی۔ اس انڈسٹری سے ایک ایسی گیس نکلنے والی تھی جو فضا میں بلند ہو کر اس حفاظتی انتظام میں رخنہ پیدا کر دے جو انسان کو مضر آفتابی شعاعوں سے بچانے کے لیے کیا گیا ہے۔ مگر انسانی ماہرین کو اس کا علم صرف اس وقت ہوا جب کہ ان کی انڈسٹری کے یہ مضرنتائج عملاً ظہور میں آگئے اور انسان ان کا شکارہونے لگا۔

 یہ تقابلی مثال بتاتی ہے کہ کائنات کی تخلیق نہ صرف یہ کہ ذہن کے بغیر نہیں ہوسکتی، بلکہ انسان جیسی ذہانت بھی اس عمل تخلیق کے لیے نا کافی ہے۔ اس کے لیے مافوق ذہانت (سپر ذہانت) درکار ہے۔ اس قسم کے اعلیٰ ذہن کے بغیر موجودہ با معنی کائنات کبھی وجود میں نہیں آسکتی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom