سفرنامہ ___ ۳

یہاں مصر کے مفتی الشیخ طنطاوی نے تذکیری انداز میں دیر تک کچھ باتیں کیں۔ اس میں خصوصی طور پر اسلام کے اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کو واضح کیا۔ پھر انہوں نے مغرب کی نماز جماعت کےساتھ پڑھائی۔ آخر میں جزیرہ والوں کے لیے، مسلمانوں کے لیے اور اہل عالم کے لیے سلامتی اورفلاح کی دعائیں کی گئیں۔ یہ عمل تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا۔

اس نشست کے دوران سوال و جواب بھی ہوا۔ شیخ طنطاوی نے اپنی کا نفرنس کی تقریر میں کہا تھا کہ اسلام امن وسلامتی کا دین ہے۔ اسلام میں صرف دفاعی قتال ہے۔ اسلام میں ہجومی قتال نہیں ہے۔ جولوگ جہاد کے نام پر غیرمسلم اقوام سے لڑائیاں چھیڑے ہوئے ہیں ان سے شیخ طنطاوی نے عدم ِاتفاق کا اظہار کیا۔

 اس پر ایران کے عالم کو اعتراض تھا۔ انھوں نے شیخ طنطاوی سے سوالات کیے۔ شیخ طنطاوی نے نہایت عالمانہ انداز میں ہر سوال کا جواب دیا۔ ایرانی عالم نے یہ حدیث پیش کی کہ أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله۔ شیخ طنطاوی نے کہا کہ اس کا تعلق قدیم مشرکین عرب سے ہے جنھوں نے پیغمبر کا انکار کیا اور ان کو ان کے وطن سے نکالا۔ اب ہمارے لیے قاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم کا حکم ہے۔ جو قومیں ہمارے خلاف عدوان نہ کریں ہم بھی ان کے خلاف جہاد نہیں چھیڑ سکتے۔ کیوں کہ قرآن میں ہے کہ فما استقامو لكم فاستقيموا لهم۔مسلم حکومت کے تحت غیر مسلموں کے بارےمیں اسلام کا اصولی حکم انھوں نے یہ بتایا کہ لهم مالنا و عليهم ما علينا۔

 مغرب کی نماز کے بعد ہمارا قافلہ دوسرے حضرات کے ساتھ ایک خاص مقام کی طرف روانہ ہوا۔ یہاں کا نفرنس کے شرکاء کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں مالٹا کے عوام جمع تھے۔ یہاں امن کے بارےمیں پوپ کا پیغام پڑھایا گیا۔ ہر مذہب کے پیشواؤں نے امن کی شمع جلائی اور امن کے لیے دعائیں کی گئیں۔ پورامجمع اس دعا میں شریک رہا۔

کا نفرنس کی تھیم مذاہب امن کے سمندر کے لیے (Religions for a sea of peace)مقرر کی گئی تھی۔ یہاں عوام جس بڑی تعداد میں اور جوش و خروش کے ساتھ جمع ہوئے وہ گویا ایک بحرِ امن کا مظاہرہ تھا۔ کارروائی کے خاتمےپر لوگوں نے آپس میں مل کر ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور مصافحہ کیا۔ اس موقع پر ان کا خاص کلمہ امن (peace) ہوتا تھا جس کو وہ اپنی زبان سے دہراتے تھے۔

یہاں سے ہم لوگ پیدل چل کر ایک بڑے میدان میں لے جائے گئے۔ یہاں مخصوص انداز میں عمومی اجتماع کا انتظام تھا۔ منتظمین اس کو دعائیہ اجلاس کہتے ہیں۔ اس دعائیہ اجلاس میں عوام اسی طرح بڑی تعداد میں امنڈ آئے تھے جس طرح تبلیغی جماعت کے جلسوں میں دعا کے وقت بستی کے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔

 غالباً ۱۹۴۲ میں پنڈت جواہر لال نہرو مئو(یو پی) آئے تھے۔ وہاں ان کا جلسہ تھا۔ میں بھی وہاں گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کہ میں نے کوئی بڑا جلسہ دیکھا۔ یہ بلا مبالغہ انسانوں کا جنگل تھا۔ بھیٹر کی اس کیفیت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

یہی احساس ۱۰ اکتوبر کے مذکورہ دعائیہ اجتماع میں بھی ہوا۔ تاہم یہ صرف بھیڑ نہ تھی بلکہ نہایت منظم اور نہایت منصوبہ بندقسم کا ایک عظیم الشان اجتماع تھا۔ اس کو دیکھ کر دوبارہ مجھے احساس ہوا کہ اس منظر کو اگر میں لفظوں میں بیان کرنا چاہوں تو میں اس کو الفاظ کی صورت میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس کو یا تو براہ راست مشاہدہ کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے یاٹی وی پر بالواسطہ مشاہدےکے ذریعے۔

 اس طرح کے تجربات کے بعد مجھے خیال آتا ہے کہ جنت کی زندگی کے پر مسرت لمحات میں ایک لمحہ غالباًوہ بھی ہو گا جب کہ آدمی اپنے جنتی مکان میں "جنتی ٹی وی" پر پچھلے انبیاء کے واقعات کو دیکھے گا۔ پیغمبروں کی زندگی حیرت ناک واقعات کی زندگی ہے۔ ہم اس کو لفظوں کی صورت میں کتاب میں پڑھتے ہیں۔ مگر الفاظ ان کا پورا تعارف نہیں کرتے۔ جنت کا ایک آدمی اپنے جنتی ٹی وی کا بٹن دبا کر جب ان کو دیکھے گا تو وہ فرحت کا ایک ایسا تجربہ ہو گا جس کا آج کی دنیا میں اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔

۹اکتوبر کی سہ پہر کو میڈیٹرینین سنٹر کے ایک ہال میں پریس کا نفرنس ہوئی۔ روم سے ۸۰ روزنامے نکلتے ہیں۔ ان میں سے بارہ اخباروں کے نمائندے پر یس کا نفرنس میں موجود تھے۔ جواب دینے والوں میں میرے سوا دو الجزائری مسلمان تھے اور ایک سوڈان کے اور ایک ایران کے عالم۔ سوالات اطالوی زبان میں کیے گئے۔ جن کا ترجمہ ایک مسیحی پادری نے عربی زبان میں کیا۔ سوالات زیادہ ترمسلم۔ مسیحی تعلقات کے بارےمیں تھے۔

پریس کا نفرنس میں روم کے ایک اخباری نمائندے نے سوال کیا کہ مسیحی لوگوں نے روم میں مسجد بنانے کی اجازت دے دی۔ پھر مسلمان مسیحیوں کو مکہ مدینہ میں چرچ بنانے کی اجازت کیوں نہیں دیتے۔

الجزائر کے دکتور محمد السلیمانی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی مذہبی تعلیمات کی بنا پر ایسا کرتے ہیں۔ اگر آپ کی انجیل میں یہ لکھا ہو کہ روم میں کسی غیر مذہب کا عبادت خانہ بنانے کی اجازت نہ دی جائے تو میں مسلمانوں سے کہوں گا کہ وہ انجیل کے اس حکم کا احترام کریں اور روم میں ہرگز مسجد بنانے کی کوشش نہ کریں۔ ہندستان میں اس طرح کے جواب پر مزید سوالات کا طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ مگر یہاں سب کے سب اخبار نویس جواب کو سن کر چپ ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے دوسرا سوال شروع کر دیا۔

 ایک اخبار نویس نے سوال کیا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان ڈائیلاگ کی کامیابی کے بارےمیں آپ کیا کہتے ہیں۔ کیوں کہ آپس کے اختلافات کی وجہ سے یہ کوشش آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ ایک جملے میں اس کا جواب یہ ہے کہ اختلاف کو نظر انداز کیجیے اور اتحاد کے گوشوں کی تلاش جاری رکھیے:

I will give the answer in a single sentence: avoid the differences and continue the dialogue to seek the points of agreement.

۹اکتوبر کو شام کی نشست کا عنوان تھا: مذہب اور کلچر (Religion and Culture)بحیثیت ِچیئرمین میں نے مختصر تقریر کی۔ اس کے بعد مذکورہ موضوع پر لوگوں نے اپنے اپنے خیالات کااظہار کیا۔

یہاں کے اجتماعات میں عورت اور مرد کثیر تعداد میں جمع ہوتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک پڑھا لکھا ہوتا تھا۔ مگر میں نے کسی بھی اجتماع میں غیر ضروری سوال و جواب کا وہ انداز نہیں دیکھا جو ہندستان جیسے ملکوں میں عام ہے۔ یہاں تمام لوگ ذوق و شوق کے ساتھ اسٹیج کی تقریروں کو سنتے اور اس کے بعد یہ اصرار نہیں کرتے تھے کہ ہم کو ہرقسم کے سوال کرنے کا موقع دو۔

ہوٹل کے کمرہ میں حسب معمول گیڈینز (The Gideons International) کی طرف سے ہدیہ کی ہوئی بائیبل بھی موجود تھی، ۱۸۹۸ میں امریکہ کے دو مسافروں نے طےکیا کہ وہ تمام دنیا کے ہوٹل، اسپتال وغیرہ میں بائبل (انجیل) کے نسخے مختلف زبانوں میں چھاپ کر فراہم کر یں گے۔ اس وقت سے آج تک یہ کام جاری ہے۔ اس طرح عالمی پیمانے پر تمام دنیا میں مسیحیت کا پیغام پہنچایا جارہاہے۔ ۱۳۰ملکوں میں اس کی شاخیں موجود ہیں۔

موجوده نسخہ تین زبانوں (ا طالوی، فرانسیسی، انگریزی)میں تھا۔ دیباچہ میں انجیل کو خدا کی حیرت ناک کتاب: (Wonderful Book of God) بتایا گیا تھا۔ اس میں درج تھا کہ گیڈینز بنیادی طور پر چرچ کا ایک غیر فرقہ وارانہ تبلیغی بازو ہیں۔ وہ خدا کے کلام کے قیمتی بیج کو تمام دنیاکی زمینوں میں بورہے ہیں:

The Gideons are essentially a nonsectarian missionary arm of the church, sowing the precious Seed, the Word of God, in the field of the World.

مسلمان اپنی تقریر وں اور تحریروں میں فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ مسیح کا پیغام صرف بنی اسرائیل کے لیے تھا اور اسلام کا پیغام ساری دنیا کے لیے ہے۔ مگر آج صورت حال یہ ہے کہ مسیحیت کو اس کے ماننے والوں نے ایک عالمی تبلیغی مذہب بنا دیا ہے۔ اور مسلمان کوئی ایک یا دوسری وجہ بتاکر اسلام کو عملاً صرف مسلمانوں کے لیے خاص کیے ہوئے ہیں۔ دعوت ِعام کا شعور مسلمانوں کے اکا بر تک میں موجود نہیں۔

۸اکتوبر کو دن کا ابتدائی نصف حصہ خالی تھا۔ ہم لوگ دوگاڑیوں پر مالٹاکاقدیم شہر دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمارے ساتھ رہنما کے طور پر ڈاکٹر پنزا (Giancarlo Penza) موجود تھے۔مالٹا کا قدیم شہر عربوں نے بسایا تھا۔ یہ آج بھی مدینہ (Mdina) کے نام سے مشہور ہے۔ وہاں کئی چیزیں دیکھیں۔

یہاں قدیم اشیاء کا ایک میوزیم ہے۔ اس میں بہت سی یادگار چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایک ممتاز آرٹ ورک وہ ہے جس میں حضرت مسیح کو نعوذ باللہ سولی پر مردہ حالت میں دکھایا گیا ہے۔ صلیب کی شکل کی ایک لکڑی ہے۔ اس پر ایک دبلا اور ننگا انسان اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں میں کیلیں ٹھونکی ہوئی ہیں۔ جگہ جگہ سے خون بہہ رہا ہے۔ اس کا جسم مردہ کے انداز میں لٹک گیا ہے۔

واقعہ کے اعتبار سے اگرچہ وہ سراسر بے بنیاد ہے مگر خالص فنی اعتبار سے وہ نہایت کامیاب ہے۔

اس کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ اس دنیا میں یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سراسر خلاف واقعہ بات کو تصویر یا الفاظ میں اس طرح ظاہر کیا جائے کہ عام انسان کو وہ بالکل حقیقی واقعہ نظر آنے لگے۔

 مدینہ کے راستوں میں چلتے ہوئے ایک گلی کے کنارے ایک بورڈ لگا ہوا نظر آیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا (Tariq Mesquita) یعنی مسجد کا راستہ یا مسجد اسٹریٹ۔ اس گلی میں کافی تلاش کے با وجود کوئی مسجد نظر نہیں آئی، غالباً قدیم زمانے میں یہاں کوئی مسجد تھی جس کے نام پر یہ گلی مسجد والی گلی مشہور ہو گئی۔ مگر اب وہ مسجد کسی مکان کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر چہ گلی کا نام اب بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔

 میرے ساتھی دکتور محمد السلیمانی الجزائری نے مالٹا کی ان چیزوں کو دیکھ کر کہا کہ طمسواکل شیئی۔ یعنی مسیحیوں نے یہاں غلبہ پانے کے بعد تمام مسلم آثار کو مٹا دیا۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ طمسنا کل شیئی یعنی ہم نے خود اپنی غفلت سے لوگوں کو یہ موقع دیا کہ وہ ہماری تمام چیزوں کو مٹا دیں۔

راستےمیں ہمارے ڈرائیور نے ایک جگہ بتایا کہ اس درخت کو مسیحی لوگ سجرۂ صلیب کہتے ہیں۔ یعنی صلیبی درخت۔ کیوں کہ وہ بالکل صلیب کی شکل کا ہے۔ ہم نے اتر کر اس درخت کو بہت غور سے دیکھا مگر ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اس قسم کے تو ہمات ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ حتی کہ خود مسلمانوں میں بھی۔

 اس کے بعد ہم ایک بڑی عمارت کے سامنے پہنچے۔ اس پر وار میوزیم کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس میں پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے زمانے کی بہت سی یادگار چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ کچھ حقیقی اور کچھ تصویر کی صورت میں۔ ایک جگہ یہاں کے گول چرچ کی تصویر تھی۔ اس کے پاس قدیم طرز کے ایک بم کی تصویر تھی جس کے پاس بہت سے لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ تختی پر لکھا ہوا تھا کہ دوسری عالمی جنگ میں ۹ اپریل ۱۹۴۲ کو جرمنی نے یہ بم گول چرچ پر گرایا مگر وہ بم پھٹ نہ سکا:

During an air attack on 9th April 1942, a 500 Lb. bomb hit the Mosta Rotunda. It pierced the dome, bounced off the interior wall twice and skidded across the whole length of the Church without exploding. None of the congregation numbering over 300 was injured.

یہ دعوتی شعور کی کمی ہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مولانا محمود حسن صاحب جس زمانے میں مالٹا میں  نظربندتھے۔ ان کے حراستی عملےکا انگریز افسر،ان سے متاثر ہو گیا۔ کیوں کہ ان کے مشرقی انداز میں اس کو روحانی شخصیت کا حلیہ نظر آیا۔ یہ بہترین موقع تھا کہ اس انگریز کو اسلام کے قریب لایا جائے۔ مگر مولانا محمود حسن صاحب نے اس سے خلافت کے معاملے میں انگریزوں کے ناروا سلوک پر بحث چھیڑ دی جو ایک سیاسی اور اختلافی موضوع تھا۔ چناں چہ وہ انگریز مزید اسلام سے قریب نہ ہو سکا۔

 مالٹا میں مولانا محمود حسن کے تین ساتھیوں میں سے ایک مولانا وحید احمد مدنی تھے۔ وہ ہندستان سے ہجرت کر کے عرب چلے گئے تھے۔ وہاں مولانا محمود حسن صاحب سے وابستہ ہوگئے اور پھر ان کے ساتھ گرفتار ہو کر مالٹا چلے گئے۔ مولانا موصوف کے صاحبزادے ڈاکٹر رشید الوحیدی دہلی میں ہیں اور مولانا فرید الوحیدی جدہ میں مقیم ہیں۔ مولانا وحید احمد مدنی کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ مختلف لوگوں سے تعلقات کے دوران انھوں نے کئی زبانیں سیکھ لیں____ عربی، اردو، فارسی، انگریزی، ترکی، فرانسیسی، پشتو، بنگلہ وغیرہ۔ اگر ان کے اندر دعوتی اسپرٹ پیدا کی جاتی تو وہ کامیاب داعی بن سکتے تھے۔ مگر ان کی لیاقت غیر استعمال شدہ رہی۔ یہاں تک کہ دسمبر ۱۹۳۸ میں ۴۵ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

مالٹا کا نقشہ

مالٹا کے مختلف حصوں میں مجھ کو بار بار جانے کا اتفاق ہوا۔مگرایک بار بھی کہیں گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی نہیں دی۔ جب کہ ہندستان کے شہروں میں ہارن کا شور عام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہارن بجا نا صرف ذہنی ڈسپلن کی کمی کا ثبوت ہے۔ حقیقی ضرورت سے اس کا تعلق بہت ہی کم ہے۔

اسی طرح مالٹا میں فٹ پاتھ کی دکانداری، سڑکوں کی گندگی، لاؤڈ اسپیکر کے ہنگامے، آپس کےلڑائی جھگڑے جیسی چیزیں کہیں نظر نہیں آئیں۔ انڈیا کا زمینی رقبہ ۱۲۶۹۴۲۰ مربع میل ہے، اور مالٹاکارقبہ صرف ۱۲۲ مربع میں۔ انڈیا کے مقابلے میں اس کے ذرائع تقریبا ًصفر کے بقدر ہیں۔ مگرمالٹا آج کی ترقی یافتہ دنیا کا ایک حصہ نظرآتا ہے۔ جب کہ انڈیا ہر اعتبار سے ترقی یافتہ دنیا سے پیچھے ہے۔حتی کہ مذہب اور اخلاق کے اعتبار سے بھی۔

انڈیا میں مقابلۃ ً نہ مادی ترقی نظر آتی اور نہ مذہبی ترقی۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہاں مذہب کی بنیاد فرقہ وارانہ نفرت پر رکھی گئی اور قومی ترقی کی بنیا د سوشلزم کے غیر فطری اصول پر اور دونوں ہی چیزیں صرف فساد پیدا کرنے والی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز اصلاح کرنے والی نہیں۔

جدید دنیا کے دوسرے شہروں کی مانند، مالٹا میں بھی گھر کی عورتیں باہر نکل آئی ہیں۔ مزید یہ کہ ہر عورت کی ٹانگیں کھلی ہوتی ہیں۔ ان حالات میں صرف غض بصر کافی نہیں، بلکہ اسی کے ساتھ اعراض بصر کے اصول پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ عورت کی ٹانگ کا کھلا ہونا بلاشبہ ایک وحشت خیز منظر ہے۔مگر جدید دنیا کے تمام مقامات پر اب یہ چیز بالکل عام ہو چکی ہے۔

 پچھلے مہینےمیں لاہور گیا تھا۔ وہاں کوئی ایک عورت بھی کھلی ٹانگوں والی نظر نہیں آئی۔ اب روم اور مالٹا آیا تو یہاں ہر عورت اسی وحشت ناک حلیے میں ہر طرف چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ اس فرق پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ تنزل کے باوجود اب بھی مسلمانوں کی زندگی میں ایسے بہت سے ممتاز پہلو ہیں جو غیر مسلم دنیا کو اسلام کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ مگرایسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ عام مفروضے کے برعکس، یہ نہیں ہے کہ لوگ مسلمانوں کی بے عملی کی بنا پر اسلام سے متاثر نہیں ہوتے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کے رہنما اسلام کے نام پر غیر مسلموں سے لفظی یا عملی لڑائی لڑنے میں مشغول ہیں۔ اس بے فائدہ لڑائی نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ضد اور نفرت کی فضا پیدا کر دی ہے۔ یہی ضد اور نفرت کی فضا اسلامی دعوت کی راہ میں رکاوٹ ہے نہ کہ مسلمانوں کی اخلاقی کمزوری۔ اگرمسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان قومی نفرت کی فضا ختم ہو جائے تو مسلمانوں کی موجودہ حالت کے باوجود اسلام تیزی سے ان کے درمیان پھیلنے لگے۔

موجود ہ زمانے میں مسیحی چرچ بہت بڑے پیمانے پر یہ کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں اورمسیحی اقوام کے درمیان عداوت کی فضا ختم ہو جائے اور صلح و آشتی کی فضا قائم ہو جائے۔ موجودہ کا نفرنس بھی اسی نوعیت کی ایک کوشش تھی۔ بہت سے مسلمان اس کو "مسیحی سازش " کہہ کہ اس کو متوحش نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو یہ دور جدید کی صلح حدیبیہ ہوگی جوبالآخر "فتح مبین" کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ بن جائے گی۔

یہاں محکمۂ سیاحت کی طرف سے ہم کو تعارفی پمفلٹ اور کاغذات دیے گئے تھے۔ یہ سب نہایت خوبصورت چھپے ہوئے تھے۔ اکثرکتا بچوں کے صفحہ اول پر کسی نہ کسی گر جایا مسیحی یادگار کی نمایاں تصویردی گئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے خیال آیا کہ اسی مالٹا میں مسلم عمارتیں بھی ہیں، مگر ان کتا بچوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ یہ ایں گنا ہے است کہ در شہر شمانیز کنند کا معاملہ ہے۔ مالٹا کےبارےمیں ترک اگر کوئی پمفلٹ چھا پیں تو وہ اپنے دور کی مسجد کی تصویر صفحۂ اول پر دیں گے۔ اسی طرح لیبیا والے اگر کوئی تعارفی پمفلٹ تیار کریں تو اس کے صفحہ اول پر لیبیا کے تعمیر کردہ اسلامی مرکز کی تصویر چھپی ہوئی ہوگی۔

 یہی تمام مسلمانوں کا حال ہے۔ ہندستان میں ہر ادارہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں سارا نقشہ اس طرح پیش کرتا ہے جیسے کہ وہی نظام عالم کی کلید ہے۔ اسی کے گرد کائنات کا کارخانہ گردش کر رہا ہے۔ ایسی حالت میں دوسروں سے اس معاملے کی شکایت کرنا غلطی پر سر کشی کا اضافہ ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔

مالٹا ایک خوبصورت مقام ہے۔ اس کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ ہم کو روزانہ بار بار شہر کے مختلف حصوں میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ مگر بے شمار گاڑیوں کے باوجود یہاں کی فضا میں کثافت بہت کم تھی۔ صفائی کا غیر معمولی اہتمام تھا۔ سڑکوں پر کہیں بھی کوئی چیز پڑی ہوئی نظر نہیں آئی۔ فٹ پاتھ کی بھیڑ اور گندگی کا نشان بھی کہیں موجودنہ تھا۔ قاعدہ اور قانون کی خلاف ورزی کا یہاں مزاج نہیں۔ ہر آدمی اپنی حد کے اندر رہ کر اپنے کام میں مشغول رہتا ہے۔ میں نے ایک بار ایک مالی کو دیکھا۔ وہ ہوٹل کے لان کی گھاس دستی مشین کے ذریعہ کاٹ رہا تھا۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مشغول اور منہمک تھا جیسے کہ اس کو اس کے سوا اور کسی چیز کی خبر ہی نہیں۔ جب کہ ہندستان کے" مالی "کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس کو سب سے زیادہ دلچسپی دوسرے کام سے ہوتی ہے اور سب سے کم دلچسپی اپنی ڈیوٹی والے کام سے۔

۱۱ اکتوبر کو ہم مالٹا کے ایک قدیم چرچ میں داخل ہوئے۔ یہ صبح نو بجے کا وقت تھا۔ اس وقت چرچ کے اندر سروس (عبا دت) ہو رہی تھی۔ گیٹ کے پاس نوٹس بورڈ پر جلی حرفوں میں یہ الفاظ: WAQT IL QUDDIES لکھے ہوئے تھے۔ غالباً اس کا مطلب وقت القدیس تھا۔

چرچ کے ہال میں چاروں طرف مجسمے لگے ہوئے تھے۔ ان میں دوسرے مسیحی پیشواؤں کے علاوہ مریم اور مسیح کا بھی مجسمہ تھا۔ اسٹیج کے مقام پر چند پادری کچھ پڑھ ر ہے تھے اور بار بار جھک کر اپنا سرمیز پر رکھتے تھے۔ حاضرین سامنے کی بنچوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔

اس کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ مسیحی عبادت(اور اسی طرح دوسرے مذاہب) کی عبادت کا طریقہ انسان کی روح کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ انسان عین فطرت کے اعتبار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے خالق کے آگے پوری طرح ڈال دے۔ اور ان طریقوں میں انسان صرف جزئی طور پر اپنے آپ کو اپنے خالق کے سامنے پیش کرتا ہے، وہ پوری طرح اپنے آپ کو خدا کے حوالے نہیں کرپاتا۔

 ۱۰ اکتوبرکو شام کے کھانے کے لیے ہم لوگوں کو ایک مقام پر پہنچایا گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ "بشپ پیلس"ہے۔ یہ بہت بڑا محل کی مانند ایک مکان تھا۔ تاہم وہ بالکل سادہ تھا۔ یہ یہاں کے بشپ کی قیام گاہ ہے۔ یہاں لوگوں نےمالٹا کے مخصوص انداز میں کھانا کھایا۔ ملاقاتیں کیں اور پھر واپسی ہوئی۔

مالٹا کے انگریزی اخبا ر دی ٹائمس (۸ اکتوبر ۱۹۹۱) میں یہ خبرتھی کہ یہاں کے سابق پولیس کمشنر کمنڈیٹور بنسینی (commedatore Algred J. Bencini) کا۷۴سال کی عمرمیں انتقال ہو گیا۔ وہ ۱۹۳۹ میں مالٹا پولیس فورس میں شامل ہوئے تھے۔

 کمنڈیٹور بنسینی نے اپنی خود نوشت سوانح عمری لکھی ہے جو ___سچائی کے سوا اور کچھ نہیں (Nothing But the Truth) کے نام سے چھپی ہے۔ انھوں نے ۱۹۷۳ میں ریٹائرمنٹ لے لیا تھا۔ وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ پانچ مہینے تک انتظام میں وزیر اعظم کی غیر قانونی مداخلت کے بعد میں پنشن لے کر ملازمت سے الگ ہو گیا تھا:

.... he had retired on pension in January 1973 after five months on protest leave against Prime Minister Dona Mintoff's illegal interference in the internal administration of the force.

کسی نظام میں جب آدمی کی پوزیشن وہ ہو جائے جو مسٹر بنسینی کی ہوگئی تھی تو اس وقت مسئلہ خارجی نظام کا نہیں رہتا بلکہ خود اپنے ضمیر کا ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں اپنے آپ کو بچانے کی تدبیر کرنا چاہیے۔ اس کے بعد نہ مصالحت درست ہے اور نہ بے فائدہ طور پر نظام سےٹکر انا۔

۱۱اکتوبر کی صبح کو مالٹا سے میری واپسی تھی۔ اپنے کمرےمیں فجر کی نماز کے لیے کھڑا ہوا توا یسا محسوس ہوا گویا میں حدیث کے الفاظ میں "صلاة مودع " پڑھ ر ہوں گویا کہ آج کا دن مالٹا سے نہیں بلکہ خود دنیا سے میری روانگی کا دن ہے جہاں خالق کائنات نے مجھ کو ایک مدت کے لیے بھیجا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آخری روانگی کا دن میرے لیے آج مقدر ہے یا آج کے بعد۔ تاہم اس وقت کو آنا ہے اور وہ ضرور آکر رہے گا۔ اس کے بعد کس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا، یہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وَاللَّهِ لَا أَدْرِي وَاللَّهِ لَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ ‌مَا ‌يُفْعَلُ ‌بِي وبكم» (مشکاۃ المصابیح: 5340)"آخری لمحات" کے احساس کے تحت کلمہ ٔشہادت میری زبان پر آگیا۔ میں نے کہا: أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبدہ ورسولہ۔ اس کلمے کو ادا کرتے ہوئے مزید یہ احساس ابھرا کہ بہت سے نادان لوگ اس کلمےکو کلمۂ فخر سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ در حقیقت وہ کلمۂ عجز ہے۔ یہ خدا کی خدائی یا رسول کی رسالت کا صرف اقرار نہیں بلکہ اس کے مقابلےمیں اپنی حیثیت واقعی کا اعتراف بھی ہے۔ گویا ایک بندہ جب اس کلمےکو اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو وہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ خدایا تو خدا ہے، میں خدا نہیں ہوں۔ اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں مجھے رسول کی حیثیت حاصل نہیں۔ توحید و رسالت کے اقرار کے ساتھ اپنی عبدیت کا یہ اعتراف جب تک اس میں شامل نہ ہو اس کو پورے معنوں میں کلمہ ٔشہادت کی ادائگی نہیں کہا جاسکتا۔

۱۱اکتوبر کی دوپہر کو ہم واپس ہو کر دوبارہ مالٹا ائیر پورٹ پہنچے۔ یہاں کچھ وقت وی آئی پی لاؤنج میں گزرا۔ ضروری اندراجات کا سارا کام ہمارے میزبان نے کیا۔ ساڑھے بارہ بجے ہوائی جہاز میں سوار ہونے کے لیے نکلا۔ یہ ایئر مالٹا کی فلائٹ (220 (KM تھی۔ جہاز کے دروازے پر پہنچاتو وہاں دروازے کے کنارے حسب ذیل دو لفظ لکھے ہوئے تھے۔ Iftah/Open))ہوائی جہاز کے اسٹاف کے ایک آدمی سے میں نے پوچھا کہ "افتح"کیا  مالطی زبان ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ مالطی زبان بہت زیادہ عربی زبان سے مشابہ ہے:

Malti language is very similar to Arabic language.

 جہاز کے مسافروں میں زیادہ تعداد سیاحوں کی تھی۔ مالٹا میں سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ مالٹا کی آمدنی کا خاص ذریعہ سیاحت ہے۔ اس کے مقابلےمیں ہندستان کو سیاحت انڈسٹری کا بہت کم حصہ ملتا ہے۔ اس کی دو خاص وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ سیاح یہاں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ مختلف قسم کی پر تشدد تحریکوں نے سیاح کو ہندستان کی طرف سے متوحش بنا دیا ہے۔

 دوسری اس سے بھی زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ ہندستان کا نظام سیاحوں کے لیے اسی طرح غیر ہمدرد ہوتا ہے جس طرح وہ عام ہندستانیوں کے لیے غیر ہمدرد ہے۔ سیاح اکثر ہندستان سے تلخ دفتری اور انتظامی تجربات لے کر واپس لوٹتے ہیں۔ جہاز کے اندر ائیر مالٹا کی فلائٹ میگزین (Melta) کے شمارہ اکتوبر ۱۹۹۱میں ایک مضمون مالٹا میں ٹیلی کارڈ کو رائج کرنے کے بارے میں تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ فائر، پولیس اور ایمبولنس جیسے ایمر جنسی نمبروں کو ڈائل کرنے کے لیے کوئی رقم ادا کرنے کی ضرورت نہیں:

One does not need to insert a card to dial the emergency numbers

 مذکورہ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ مالٹا میں سیاحوں کے لیے بہت سی رعایتیں ہیں۔مذکورہ رعایت ان میں سے صرف ایک ہے۔

 ہمارا جہاز ۳۳ ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتا ہوا مالٹا سے قاہرہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ میں ہم جزیرہ کریٹ (Crate) سے گزرے۔ کریٹ کو دیکھ کر ماضی کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔ عرب ۸۲۴ء میں کریٹ کے ساحل پر اتر چکے تھے اور انھوں نے اس کے ایک حصے پر اپنا اقتدارقائم کر لیا تھا۔ ۱۶۶۹میں ترکوں نے پورے کریٹ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ میڈ یٹرین کا یہ جزیرہ ایک عرصہ تک ترکوں کی یورپ میں پیش قدمی کے لیے ان کا بحری اڈہ بنا رہا۔ ۱۸۹۸ میں ترکوں کو کریٹ چھوڑ دینا پڑا۔ (253/5)

میں نے سوچا کہ"کریٹ" ایک اعتبار سے مسلم تاریخ کا ایک صفحہ ہے، ایک ایسی تاریخ جواب گزر چکی۔ اگر میں صرف اس تاریخ کو یاد کروں تو اس سے مجھے حسرت اور افسوس کے سوا کچھ اور ملنے والانہیں۔ مگر دوسرے اعتبار سے "کریٹ" ایک جزیرہ ہے جو میڈ یٹرینین کے درمیان ابھرا ہوا ہے۔ وہ قدرت کا ایک نشان ہے جو بتاتا ہے کہ کس طرح خدا نے وسیع سمندروں میں جگہ جگہ خشکی کے مقامات پیدا کر دیے ہیں جہاں انسان اپنی زندگی کی تعمیر کر سکے۔ "کریٹ" کو اگر میں اس دوسرے پہلو سے دیکھوں تو آج بھی وہ مجھ کو اپنا نظر آئے گا۔ کیوں کہ وہ مجھ کو عظیم ربانی خوراک دینے کا ذریعہ بن رہا ہے۔

 ہم نے ائیر مالٹا کے جس جہاز سے سفر کیا، اسی سے مالٹاکے پرائم منسٹر ایڈورڈ فرنچ ادامی (Edward French-Adami) بھی سفر کر رہے تھے مگر جہازمیں پرائم منسٹر کےلیے کوئی اہتمام نہ تھا نہ سیکورٹی کا کوئی آدمی دکھائی دیا۔ انڈیا کا پرائم منسٹر اولاً تو عام جہاز (کمر شیل فلائٹ)میں سفر نہیں کرے گا۔ اور اگر با لفرض وہ ایسا کر ے تو جہاز میں اس کے لیے اتنی دھوم ہوگی کہ ہر آدمی محسوس کرےگا کہ پرائم منسٹر صاحب اس جہاز میں سفر کر رہے ہیں۔ ہندستان میں "پرائم منسٹر" کے لیے کچھ اور ہے اور عوام کے لیے کچھ اور۔ اس کے برعکس مالٹا میں جو عوام کے لیے ہے وہی پرائم منسٹر کے لیے بھی ہے۔ پرائم منسٹر کو انتظامی اختیارات یقیناً عوام سے زیادہ حاصل ہیں۔ مگر حقوق اور احترام میں دونوں کےدرمیان کوئی امتیازی فرق نہیں۔

  جہاز میں میرے قریب کی سیٹ پر مصر کے ایک عیسائی جارج اناوتی (George Anavati)تھے۔ وہ اسکندریہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ۵۰ سال سے قاہرہ میں رہتے ہیں۔ ان سے مصر کے عیسائیوں کے بارے میں بات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ مصر میں ۰ افیصد مسیحی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ مسیحیوں کا کلچر اور مسلمانوں کا کلچر ایک ہے یا دو ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارامذ ہب اور ان کا مذہب تو الگ الگ ہے۔ باقی کلچر دونوں کا ایک ہے۔ کلچر کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ میں نے ان کی عمر پوچھی۔ انھوں نے بتایا کہ ۸۶ سال۔ میں نے کہا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ ۸۶ سال میں اتنی اچھی حالت میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ الحمد للہ۔

سماجی تعلقات کے سلسلے میں اس کی بے حدا ہمیت ہے۔ دومسلم گروہ بھی اگر کلچر میں ایک دوسرے سے مختلف ہوں تو ان کے درمیان معتدل تعلقات مشکل ہو جائیں گے۔ اس کی مثال سابق پاکستان میں بنگالی اور پنجابی تعلقات اور موجودہ پاکستان میں سندھی اورمہاجرتعلقات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ہندستان کے مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ اکثریتی فرقے سے الگ اپنا کلچرل تشخص قائم کریں۔ اصولاً یہ کوئی غلط بات نہیں مگر ہم کو جاننا چاہیے کہ ہر چیز کی ایک قیمت ہے اور کسی مشترک سماج میں علاحدہ تشخص قائم کرنے کی بھی ایک قیمت ہے۔ اس دنیا میں قیمت دیے بغیر کوئی چیز کسی کو نہیں ملتی۔ سندھ کے مہاجر ین نے اپنا علاحدہ گرو ہی تشخص قائم کر نا چاہامگر وہ اس کی قیمت دینے کے لیے تیا ر نہیں ہوئے۔ اس کا جو نتیجہ ہوا وہ ہر ایک کو معلوم ہے۔

 جو سوال میں نے جارج انا واتی سے پوچھا تھا۔ وہی سوال میں نے قاہرہ میں محمد کمال صاحب سے کیا۔ میں نے پوچھاکہ کیا یہاں کلچر کے اعتبار سے مسلمان اورمسیحی میں فرق ہے۔ اگر ہم ایک مسیحی سے سڑک پر ملیں اور اس سے بات کریں یا اس کے ساتھ چل کر اس کے گھر میں داخل ہوں تو کیا ہم اس کی زبان اور رہائش میں اور مسلمان مصری کی زبان اور رہائش میں فرق محسوس کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ نہیں، کوئی فرق نہیں۔ سوا اس کے کہ ہم مسجد میں جاتے ہیں اور وہ چرچ میں جاتے ہیں۔ اس کے سوا دونوں میں کوئی فرق نہیں (ليس هناك أى فرق)

کو لمبس ایک اطالوی ملاح تھا جس نے مشہور روایت کے مطابق امریکہ کو دریافت کیا۔ اس کی کشتیوں کا بیڑا ۲ اکتوبر ۱۴۹۲ کو امریکا (Bahamas) کے ساحل پر پہنچا تھا۔ اس اعتبار سے اس واقعے پر اب پانچ سو سال گز رچکے ہیں۔

الیتالیا کے اشاعتی شعبےنے اس مناسبت سے ۱۳۰ صفحات کا خصوصی نمبر (92Colombo)شائع کیا ہے۔ اس میں کولمبس کو عالمی اطالوی (Universal Italian) کا لقب دیا گیا ہے۔ ایک مضمون  (The Dawn of Modern Age)کے تحت بتایا گیا ہے کہ ۵۰۰ سال پہلے کو لمبس کی دریافت امریکہ کے ذریعےایک نئے جغرافی، علمی، اخلاقی اور افق کا راستہ کھولا گیا:

500 years ago the way was opened to new geographic, scientific, ethical and juridical horizons (p.10)

خالص تاریخی اعتبار سے اصل حقیقت یہ ہے کہ دور جدید کی صبح اسلام کے ظہور کے وقت چودہ سو سال پہلے طلوع ہوئی۔ یہ در اصل توحید پر مبنی اسلامی انقلاب تھا جس نے انسان کے اوپر تمام جدید ترقیوں کے دروازے کھولے (تفصیل کے لیے: اسلام دور جدید کا خالق)

 ایک مسلمان پر وفیسر سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے عربوں کے بارے میں یہ شکایت کی کہ وہ یورپ اور امریکہ کے سفید فام لوگوں سے بہت مرعوب ہیں۔ یہاں کی ایک اصطلاح ہے جس کو عقدة الخواجة (White man Complex) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ اس مرعوبیت کو بتاتا ہے جو موجودہ عربوں کو سفید فام امریکنوں یا یوروپینوں کے بارے میں ان کے اندر ہے۔ ایئر پورٹ پر سفید فارم امریکی کو "ویلکم "کے ساتھ مسکراہٹ ملے گی۔ مگر ہندستانی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی مسلمان کا استقبال صرف خشک دفتریت سے کیا جائے گا۔ یہی فرق ہر سطح پر پایا جاتا ہے۔ حتی کہ تنخواہوں میں بھی دونوں طبقوں کے درمیان واضح امتیاز موجود ہے۔

 تاہم مجھے ذاتی طور پر اس کی شکایت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کا تفریقی سلوک حقیقۃً سفید فام یا سیاہ فام کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ بلکہ قومی امیج کی بنیاد پر ہو تا ہے۔ "سفید فام امریکی" نے اپنے تین سو سالہ عمل سے اپنی ایک اعلیٰ عمومی امیج بنائی ہے۔ بد قسمتی سے ایشیائی اور افریقی مسلمان اپنے حق میں اس قسم کی امیج نہ بنا سکے۔ ایسی حالت میں ناممکن ہے کہ ہماری کوتاہی کی قیمت کوئی دوسرا ادا کرے۔

مادی اور ٹکنکل ترقیات کے علاوہ عام اصول حیات میں بھی ایشیائی اور افریقی مسلمان ان سفید فام قوموں سے پیچھے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ لوگ اپنا کام حد درجہ پلاننگ کے ساتھ کرتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں ابھی تک تصور کے درجے میں بھی پلاننگ کا کوئی وجود نہیں۔ ایسی حالت میں اگر بین اقوامی سلوک میں دونوں کے درمیان فرق پایا جائے تو یہ عین مطابق حقیقت بات ہے۔ ہمیں چاہیے کہ خود اپنی کوتاہیوں کو دور کریں نہ کہ دوسروں کے خلاف احتجاج کرنے میں اپنا وقت ضائع کریں۔

 قاہرہ کے ہوائی اڈےپر جہاز اترا تو مسافروں نے تالیاں بجائیں۔ ہوائی جہاز جب فضا میں بلند ہو کر اڑ رہا ہو تو اس میں حادثے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ زیادہ تر ہوائی حادثے ہوائی اڈہ سے اڑتے ہوئے یا ہوائی اڈےپر اترتے ہوئے پیش آتے ہیں۔ اس لیے ہوائی جہاز کا محفوظ طور ہوائی اڈے پر اتر جانا مسافروں کے لیے خصوصی اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔

جہاز سے اتر کر ہوائی اڈےکی عمارت کے سامنے پہنچا تو داخل ہونے کے دروازے پر ایک بورڈ تھااس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد قرآن (یوسف ۹۹) کی یہ آیت روشن حروف میں لکھی ہوئی تھی:

ادخلوا مصر إن شاء الله آمنین۔ اندر ایمگریشن کی قطار میں کھڑا ہو ا تھا۔ اتنے میں شیخ اسحاق ادریس مجھ کو دیکھ کر وہاں آگئے۔ انھوں نے میرا اور میرے ساتھی کا پاسپورٹ لے کر اسٹاف کے ایک آدمی کو دیا اور ہم کو لے جا کر ایک کرسی پر بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ضروری کارروائی مکمل ہو کر ہماراپاسپورٹ واپس آگیا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دل سے دعا نکلی کہ کاش قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ میرے ساتھ رحمت کا معاملہ فرمائے۔

 ہوائی اڈےکے باہر میرے میزبان محمد کمال مصری موجود تھے۔ ان کے ساتھ شہر کے لیے روانہ ہوا۔ گاڑی میں بیٹھا تو محمد کمال صاحب نے کہا: شرفتَ القاهرة یا مولانا۔ اس وقت میں ایک خیال میں گم تھا۔ میری زبان سے نکل گیا: نعم۔ ایک لمحے کے بعد خیال آیا کہ میں نے بڑا غلط لفظ کہہ دیا۔ مجھے کہنا چاہیے تھا: بل القاهرة شرفَتنی۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کان سے نہیں سنتا، وہ دماغ سے سنتا ہے۔ آدمی کسی کی بات سنے یاکسی کی زبان سے کوئی کلمہ نکل جائے تو صرف لفظ کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ حسن ِظن سے کام لیتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس سے اس کی واقعی مراد کیا ہے۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے کہ الذین یستمعون القول فيتبعون أحسنه قاہرہ کے درو دیوار گویا کتاب واقعات کے زندہ اوراق ہیں۔ یہاں کے ہر حصے سے تاریخ کے واقعات وابستہ ہیں۔ ہم شہر کے لیے روانہ ہوئے تو میرے میزبان نےسڑک کے دونوں طرف کھڑی ہوئی عمارتوں کا تعارف کرانا شروع کیا___ یہاں انور سادات کو گولی ماری گئی۔ یہ صلاح الدین کا قلعہ ہے۔ یہ جامعۃ الاز ہر ہے۔ یہ فاطمیوں کے عہد کی یادگار ہے۔ وغیرہ۔ ایک لمحے کے لیے ایسا محسوس ہو اگو یا ہم سڑک پر نہیں چل رہے ہیں بلکہ تاریخ کے درمیان اپنا سفر طے کر رہے ہیں۔

شیخ اسحاق ادریس بھی ہمارے ساتھ آئے۔ ایک مقام پر پہنچ کر گاڑی رکی۔ یہ دس منزل منزلہ مکان تھا جس کی آخری منزل پر موصوف کا قیام ہے۔ ہم گاڑی سے باہر آئے تو سامنے پھلوں کی دکان تھی  جو مذکورہ مکان کی زمینی منزل پر واقع ہے۔ ہم لوگ کل چار آدمی تھے۔ دکاندار فوراً اپنی دکان سے اٹھے اور کیلے چھیل چھیل کر ہر ایک کو پیش کرنا شروع کیا۔ میں نے کہا کہ یہ عرب اخلاق کا پہلا نمونہ ہے جس کا تجربہ یہاں پہنچ کر ہم کو ہو رہا ہے۔ کچھ وقت شیخ اسحاق ادر یس سوڈانی کے مکان پر گزارنے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے۔

رات کو عشاء کے وقت ہم اپنی قیام گاہ (زہرا، حلوان) پہنچے۔ یہ دکتور عبد الحلیم عویس کا مکان ہے۔ انھیں کی دعوت اور اصرار پر مصر کا یہ سفر پیش آیا۔ وہ ریاض کی جامعۃ الامام میں علوم اجتماعی کے شعبے میں استاد ہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

ابن خلدون ۱۳۸۲ء میں قاہرہ آیا تھا۔ اس وقت بحری راستےکے ذریعے تیونس سے اسکندریہ (مصر) پہنچنے میں ابن خلدون کو چالیس دن لگے۔ چند روز اسکندریہ ٹھہر کر وہ قاہرہ پہنچا۔ آج مواصلات کی ترقی نے سفر کی مدت کو کتنا زیادہ گھٹا دیا ہے۔ یہ مواصلاتی ترقیاں شاید اسی لیے ہیں کہ لوگوں کو اہل جنت کے سفروں کا تعارف کرایا جائے۔جو زمین و آسمان کی وسعتوں میں بلا خوف تیز رفتاری کے ساتھ جاری رہے گا (آل عمران:133)

 اگر چہ قاہرہ کی تاریخ پانچ ہزار سال تک جاتی ہے۔ مگر موجودہ شہر صحابیٔ رسول عمرو بن العاص نے ۶۴۱ء میں بسایا۔ اس وقت اس کا نام الفسطاط تھا۔ اسی سال انھوں نے مصر کی پہلی مسجد اسی شہر میں بنائی جو اب بھی مسجد عمرو بن العاص کے نام سے مشہور ہے۔ ۹۷۴ء میں شہر کی نئی تعمیر ہوئی۔ اس وقت سے اس کا نام القاھرہ ہے۔

 ۱۷۹۸ء میں جب نپولین قاہرہ میں داخل ہوا اس وقت شہر کی آبادی تین لاکھ (300,000) سے کم تھی۔ آج قاہرہ کی آبادی تقریباً ۸۰ لاکھ ہو چکی ہے۔

"دار الصحوة " کو تفصیل کے ساتھ دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کو دکتور عبد الحلیم عویس(جامعۃالامام ریاض) نے ۱۹۸۴ میں قاہرہ میں قائم کیا۔ اس کے موجودہ انچارج محمد کمال عبد رب النبی ہیں۔ محمد کمال صاحب میں واقعی کمال کے اوصاف ہیں۔ قاہرہ میں دکتور عبدالحلیم عویس اور محمد کمال عبد رب النبی کے خصوصی تعاون کی وجہ سے ہم کو بہت آسانی ہوئی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom