موت کا نشانہ
ڈاکٹر کرنی سنگھ (۱۹۲۴-۱۹۸۸) بیکانیر کے مہاراجہ تھے۔ ریاست کے خاتمے کے بعدوہ ہندستانی پارلیمنٹ کے ممبر ہو گئے ۔ ان کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک ماہر نشانہ باز (Shooter) تھے۔ وہ ہندستان کی طرف سے پانچ اولمپک (روم، ٹوکیو، میکسیکو، میونخ، ماسکو)میں کامیابی کے ساتھ شریک ہوئے۔ وہ ۱۷سال تک نشانہ بازی میں غیر مفتوح چیمپین (Unbeated champion) بنے رہے۔ ۷ ستمبر ۱۹۸۸ کو نئی دہلی میں برین ہیموریج سے ان کا انتقال ہو گیا جب کہ ان عمر ۶۴ سال تھی۔
نشانہ بازی (Shooting) ایک قدیم فن ہے۔ پہلے غلیل اور گوپھن اور تیر کے ذریعہ نشانہ اندازی ہوتی تھی۔ اب رائفلوں اور بندوقوں کے زمانے میں اس نے ایک نئے فن (آرٹ آف فائرنگ)کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس کے بڑے بڑے عالمی مقابلے ہوتے ہیں جہاں مصنوعی نشانوں(مثلاً مٹی کی چڑیا)پرر ائفل وغیرہ سے گولی ماری جاتی ہے۔ اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ایک کتاب کا نام یہ ہے:
C.E. Chapel, The Art of Shooting (1960)
آدمی خارجی چیزوں پر نشانہ لگاتا ہے، حالاں کہ عین اسی وقت وہ خود موت کے نشانے پر ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنی زد میں لے کر خوش ہوتا ہے، حالاں کہ وہ خود پوری طرح موت کی زد میں ہوتا ہے۔ آدمی خارجی نشانہ اندازی کا چیمپین بنتا ہے حالاں کہ اس کو داخلی نشانہ اندازی کا چیمپین بننا چاہیے۔
کتنا کم جانتے ہیں وہ لوگ جو اپنے آپ کو جاننے والا سمجھتے ہیں۔ کتنے غیر ماہر ہیں وہ لوگ جن کا نام دنیا والوں نے ماہرین کی فہرست میں لکھ رکھا ہے۔
جاننے والا وہ ہے جو اپنے آپ کو جانے۔نشانے کا ماہر وہ ہے جو اپنے آپ پرنشانہ لگا سکے۔ خارج پر نشانہ لگانے والوں کو دنیا میں قیمت ملتی ہے، اپنے آپ پر نشانہ لگانے والوں کو آخرت میں ان کی قیمت ملے گی، خواہ دنیا والوں نے ان کے اس عمل کو جانا بھی نہ ہو۔
دوسروں پر نشانہ لگا نا سب سے زیادہ آسان کام ہے اور اپنے آپ پر نشانہ لگا نا سب سے زیادہ مشکل کام۔ دونوں میں اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ خارجی نشانہ بازی کے میدان میں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔مگر داخلی نشانے کا میدان ہر طرف سونا نظر آتا ہے۔