ایک ملی ضرورت
مجھے اکثریہ تجربہ پیش آتا ہے کہ میری ملاقات ایسے مسلمانوں سے ہوتی ہے جو تعمیری باتیں کرتے ہیں، جو مثبت سرگرمیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ پورے معنی میں انسانیت دوست ہیں، ان کو کسی بھی طرح تنگ نظر یا فرقہ پرست نہیں کہا جا سکتا۔ دوسری طرف جب مجھے یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ برادران وطن کے احساسات مسلمانوں کے بارے میں کیا ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کی جو تصویر بنی ہے وہ بالکل منفی تصویر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اس ملک کا اثاثہ نہیں۔ مسلمان اس ملک کے لیے صرف بوجھ ہیں۔ وہ اس ملک میں دینے والے لوگ نہیں ہیں بلکہ صرف مانگنے والے لوگ ہیں۔ ان کی سیاست احتجاجی سیاست ہے۔ حقوق طلبی کے سوا کوئی اور زبان انھیں معلوم نہیں۔
داخلی حالت اور بیرونی تصویر میں یہ فرق کیوں ہے۔ اگر چہ مسلمانوں میں کثرت سے صحت مند ذہن کے لوگ ہیں، اس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی تصویر صحت مند تصویر نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اخباروں کے صفحات میں اور جلسوں اور تقریروں میں ایسے مسلمان نمایاں ہو رہے ہیں جو ملت کی صحیح نمائندگی نہیں کرتے۔
موجودہ زمانہ پریس کا زمانہ ہے۔ لوگ اپنے شہر کی بات کو بھی اخباروں میں پڑھ کر جانتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں بھی عام لوگوں کو اتنی ہی بات معلوم ہے جو اخباروں میں چھپتی ہے۔ بدقسمتی سے اخبارات میں مسلمانوں کی نمائندگی ایسے لوگ کر رہے ہیں جو مسلمانوں کی نمائندگی کے اہل نہیں۔ ان کی سوچ منفی سوچ ہے۔ اس لیے ان کی نمائندگی بھی منفی نمائندگی ہوتی ہے۔ یہی خاص وجہ ہے جس کی بنا پر مسلمانوں کی تصویر عمومی طور پر ایک غیر واقعی تصویر بن گئی ہے۔
ایسی حالت میں ایک اہم ملی ضرورت یہ ہے کہ صحت مند سوچ رکھنے والے مسلمانوں کا ایک فورم بنایا جائے۔ یہ فورم ہر موقع پر سامنے آئے۔ وہ شکایتی زبان کو چھوڑ کر تعمیری زبان بولے۔ وہ جذ باتی اندازِ کلام کے بجائے حقیقت پسندانہ اندازِ کلام اختیار کرے۔ میڈیا میں اگر اس قسم کے ایک فورم کی طرف سے مسلمانوں کی نمائندگی ہونے لگے تو ملت کی بگڑی ہوئی تصویر اپنے آپ درست ہو جائے گی۔