عقل کی بات
حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ قرآن میں مختصر طور پر اور بائبل میں مفصل طور پر بیان ہوا ہے۔ وہ حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی سو سال پہلے شام و فلسطین کے درمیانی علاقے میں پیدا ہوئے۔ بائبل میں اس جگہ کا نام عوض (Uz) بتایا گیا ہے۔
بائبل کا بیان ہے کہ حضرت ایوب کے یہاں سات ہزار بھیڑیں اور تین ہزار اونٹ اور پانچ سو جوڑی بیل اور پانچ سو گدھے اور بہت سے نوکر چاکر تھے، ایسا کہ اہل مشرق میں وہ سب سے بڑا آدمی تھا۔ کچھ عرصہ بعد ایسی آفتیں آئیں کہ حضرت ایوب کا تمام مال و دولت ختم ہو گیا۔ وہ بالکل مفلس ہو گئے۔ تاہم انھوں نے صبر کیا۔ بائبل کے الفاظ میں:
تب ایوب نے اٹھ کر اپنا پیراہن چاک کیا اور سر منڈایا اور زمین پر گر کر سجدہ کیا۔ اور کہا ننگا میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگاہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو (ایوب:باب، ۱)
کچھ سالوں کے بعد حالات بدلے۔ حضرت ایوب کے پاس دوبارہ ہر قسم کا مال و اسباب مزید اضافے کے ساتھ جمع ہو گیا۔ بائبل کا بیان ہے: اور خدا وند نے ایوب کو جتنا اس کے پاس پہلے تھا اس کا دو چند دیا۔ یوں خدا وند نے ایوب کے آخری ایام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی۔ اس کے پاس چودہ ہزار بھیڑ بکریاں اور چھ ہزار اونٹ اور ہزار جوڑی بیل اور ہزار گدھے ہوگئے (ایوب:باب ۴۲)
قرآن میں اس واقعے کا تفصیلی ذکر نہیں۔ البتہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک نہایت اہم اور سبق آموز بات بیان کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ ایوب کو ہم نے دوبارہ سب چیز دے دی ، اور اس واقعے میں نصیحت ہے عقل والوں کے لیے (و ذكرى لأولى الألباب، ص ۴۳)
اس مختصر فقرےکے بہت سے پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی کو اگر محرومی کا تجربہ ہو تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خدا نے اپنی رحمت سے اس دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کوئی محرومی آخری محرومی نہیں۔ یہاں ہر محرومی کے بعد دوبارہ یافت ہے۔ ہر کھونے کے بعد دوبارہ پانا ہے۔ بشر طیکہ آدمی صبر کرے اور خدا کے اعتماد پر اپنی جدوجہد کو برابر جاری رکھے۔