شکر نہیں
محمدمار ما ڈیوک پکتھال (۱۹۳۶ - ۱۸۷۵) نے لکھا ہے: " چند سال پہلے انگلستان کے اخباروں میں ایک بحث چلی تھی۔ یہ کہ اگر کوئی حسین اور مشہور اور نا در یونانی مجسمہ کسی کمرہ میں ایک زندہ انسانی بچے کے ساتھ ہو اور اچانک اس کمرہ میں آگ پھیل جائے۔ اب اگر ایسی صورت حال ہو کہ ان دونوں میں سے صرف کسی ایک کو بچایا جانا ممکن ہو تو دونوں میں سے کس کو بچایا جائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بہت سے مشہور اور قابل حضرات نے اس وقت یہ رائے ظاہر کی تھی کہ ایسی حالت میں مجسمے کو بچانا چاہیے اور بچہ کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ان حضرات کی دلیل یہ تھی کہ بچے تو ہزاروں کی تعداد میں ہر روز پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ مگر قدیم یونانی آرٹ کا ایک اعلیٰ نمونہ دوبارہ وجود میں نہیں لایا جا سکتا۔
M.M. Pickthal, The Cultural side of Islam, pp. 3-4
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا کی نعمتوں کے بارے میں انسان کے اندر شکر کا جذبہ کیوں پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی کم از کم ایک وجہ یہ ہے کہ خدا کی نعمتیں انسان کو بے حساب مقدار میں اور ہر آن پہونچتی رہتی ہیں۔ نعمتوں کا بہت زیادہ ہونا اس کے انوکھے پن کو کھو دیتا ہے اور بہت کم آدمی اپنے اندرشکر کا احساس پیدا کر پاتے ہیں (وقليل من عبادي الشكور)
انسان کا ایک بچہ ایک حیرت ناک معجزہ ہے۔ وہ آرٹ کے تمام انسانی نمونوں سے بے حساب گنا زیادہ قیمتی ہے۔ مگر آرٹ کے اعلیٰ نمونے چند ہیں، جب کہ انسانی بچے مسلسل کروروں کی تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں۔ انسانی آرٹ کی یہی ندرت اور انسانی بچوں کی یہی عمومیت ہے جس نے انسانی آرٹ کے بارے میں لوگوں کے اندر استعجاب (Awe) کے احساس کو جگایا، مگر ان کے اندر خدا کے پیدا کیے ہوئےبچوں کے بارے میں اس احساس کو نہیں جگایا۔
سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ انسان اللہ کا شکر کرے۔ اس کے اندر شکر کے سمندر کا سیلاب امنڈ آئے۔ مگر شیطان مختلف طریقوں سے چاہتا ہے کہ انسان کو اس افضل ترین عبادت سے ہٹا دے۔ اس دنیا میں جو شخص اللہ کا شکر گزار بندہ بن کر رہنا چاہے، اس کو شیطان کے فتنوں کو پہچاننا ہوگا۔ورنہ و ہ شکر گزاری کے مقام کو حاصل نہیں کر سکتا۔