دعوت کا اصول
بینک کی آمدنی کا انحصار کسٹمر پر ہوتا ہے۔ یعنی وہ شخص جو بینک میں اپنی رقم جمع کرے یا بینک سے قرض لے۔ چناں چہ بینک کا یہ اصول ہے کہ اپنے کسٹمر کی آخری حد تک عزت کی جائے۔ بینک کے ملازموں کو ٹریننگ کے دوران بتایا جاتا ہے کہ کسٹمر ہمارے لیے بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے:
Customer is the king.
کسٹمر اگر کوئی نا مناسب بات کہے اور بینک ملازم اس سے اس پر بحث کرنے لگے تو اندیشہ ہے کہ کسٹمربدک کر واپس چلا جائے گا۔ اس لیے بینک ملازموں کو سکھایا جاتا ہے کہ تم کسٹمر سے کسی بات پر نہ الجھو۔ یہ سمجھ لو کہ کسٹمر ہمیشہ صحیح ہوتا ہے:
Customer is always right.
یہ طریقہ جو بینک اپنے کسٹمر کے ساتھ اختیار کرتا ہے، وہی طریقہ داعی اپنے مدعو کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ داعی اپنے مدعوسے کسی بات پر نہیں الجھتا۔ داعی یک طرفہ طور پر اپنے مدعوکی تلخ باتوں کوبرداشت کرتا ہے تاکہ اس کے اور مدعو کے درمیان ہمدردی کی فضا قائم ہو سکے۔
دعوت کی لازمی شرط صبر ہے۔ اگر صبر نہیں تو دعوت بھی نہیں۔ صبر کوئی پسپائی یا خود سپردگی نہیں۔ یہ ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنے جذبات پر قابو پانا ہے۔ یہ خدا کے دین کے تقاضوں کے لیے اپنی ذات کے تقاضوں کو قربان کرنا ہے۔
مدعو وہ ہے جو ابھی گمراہی میں پڑا ہوا ہو۔ اور جو لوگ گمراہی میں پڑے ہوئے ہوں، ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ حق کے اصولوں پر عمل کریں گے۔ وہ تو ابھی اپنی خواہش کے پرستار ہیں پھر وہ خدا کی پرستاری والا رویہ کیوں کر اختیار کر سکتے ہیں۔
داعی کو پیشگی طور پر یہ مان لینا چاہیے کہ مدعو کی طرف سے زیادتی کا سلوک ہوگا۔مدعو کی طرف سے ایسے قول اور فعل کا مظاہرہ ہو گا جو داعی کے جذبات کو برہم کرنے والے ہوں۔ مگر ان سب کے باوجود داعی کو برداشت کے رویےپر قائم رہنا ہے۔ اس برداشت کے بغیر کوئی شخص کبھی داعی نہیں بن سکتا۔