اعتراف
حضرت عمرفاروق۱۳ ھ سے ۲۳ ھ تک خلیفہ رہے۔ اسی زمانے کا واقعہ ہے۔ ایک اعرابی مدینہ آیا۔ اس نے کہا کہ کون ہے جو مجھ کو وہ کلام پڑھائے جو محمد پر اترا ہے۔ ایک شخص نے اعرابی کو سورہ التوبہ پڑھائی۔
یہ شخص عالم نہ تھا۔ اور اس وقت قرآن میں اعراب بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ چناں چہ اس نے ایک آیت کو پڑھانے میں غلطی کر دی۔ اس نے ان الله بریئ من المشركين ورسوله (لام کو زیر کے ساتھ) پڑھایا۔ اس طرح پڑھنے سے آیت کا مطلب یہ ہو گیا کہ اللہ مشرکین سے اور اپنے رسول سے بری ہے۔ اعرابی نے یہ سن کر کہا: کیا اللہ اپنے رسول سے بیزار ہو گیا۔ اگر اللہ اپنے رسول سے بیزار ہے تو میں بھی اس سے بہت زیادہ بیزار ہوں۔
حضرت عمرفاروق کو اعرابی کے اس قول کی خبر ملی تو انھوں نے اعرابی کو بلایا۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے ایسا کہا ہے کہ میں خدا کے رسول سے بیزار ہوں۔ اعرابی نے جواب دیا کہ اے امیرالمومنین، میں مدینہ آیا۔ مجھ کو قرآن کا علم نہ تھا۔ میں نے کہا کہ کون ہے جو مجھ کو قرآن پڑھا دے۔ فلاں شخص نے مجھ کو سورہ التوبہ پڑھائی۔ اس کی ایک آیت اس نے مجھ کو اس طرح پڑھائی:أَنَّ ٱللَّهَ بَرِيٓءٞ مِّنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ وَرَسُولِهۥ (لام کے زیر کے ساتھ) جب اس نے اس طرح پڑھایا تو میں نے کہا کہ کیا اللہ اپنے رسول سے بیزار ہے۔ اگر اللہ اپنے رسول سے بیزار ہے تو میں بھی اس سے بہت زیادہ بیزار ہوں۔
حضرت عمرفاروق معاملے کو سمجھ گئے ۔ انھوں نے کہا کہ اسے اعرابی، یہ اس طرح نہیں ہے جس طرح فلاں آدمی نے تم کو پڑھایا۔ اعرابی نے پوچھا کہ اے امیرالمومنین، پھر وہ کس طرح ہے۔ حضرت عمرنے فرمایا کہ وہ اس طرح ہے:ان الله برى من المشركين ورسوله (لام کے پیش کے ساتھ) اعرابی نے اس کو سنا تو فوراً کہا: اللہ مشرکین سے بیزار ہے تو میں بھی خدا کی قسم مشرکین سے بہت زیادہ بیزار ہوں۔
غلطی کر نا برا نہیں ___ بلکہ غلطی پر قائم رہنا برا ہے۔ زندہ انسان وہ ہے جس کو اس کی غلطی بتائی جائے تو فورا ًوہ رجوع کرلے، اور مردہ انسان وہ ہے جو غلطی بتانے کے بعد بھی رجوع کے لیے تیار نہ ہو۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ اس کو اپنے لیے وقار کا مسئلہ بنالے۔ (البقرہ:206)