عبرت ناک
ہندستان ٹائمس (۱۸ اپریل ۱۹۹۲) میں صفحہ ۱۳ پر ایک بڑی عبرت ناک رو داد شائع ہوئی ہے۔ مسٹر پر کاش لاہا ہندوستان اسٹیل میں ایک اعلیٰ افسر تھے۔ ان کے دو ہو نہار لڑکے تھے جن کا نام پر یا جیت لاہا اور پرسن جیت لاہا تھا۔ دونوں لڑکوں کی تعلیم سینٹ زیویرس اسکول میں ہوئی۔ ان کو انگلش لٹریچر کا خاص ذوق تھا۔ دونوں شاندار طور پر ترقی کی منزلیں طے کر رہے تھے۔
بظا ہر وہ ہر طرح صحت مند تھے۔ اچانک ایک صبح کو پر سنجیت نے محسوس کیا کہ گھر کی سیڑھیاں چڑھنے میں ان کو مشکل ہو رہی ہے۔ چند دن بعد وہ اپنے اسکول میں لڑکھڑا کر گر پڑے۔ ڈاکٹر کو دکھایا گیا۔ ڈاکٹر نے ان کو وھیل چیر پر ڈال دیا۔ پورے خاندان کے لیے یہ بڑا سخت صدمہ تھا۔ ایک نوجوان بیٹا چلنے پھرنے سے معذور تھا۔
مگر معاملہ یہیں نہیں رکا۔ اس کے بعد عین یہی بیماری دوسرے بھائی پر یا جیت کو بھی ہوگئی۔ دونوں بھائی چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے۔ آخر کار ۴جولائی ۱۹۹۰ کو پر سنجیت کا انتقال ہو گیا۔ اب پر یا جیت کو اندیشہ ہوا کہ وہ بھی زندہ نہیں بچے گا۔ اس نے اپنی آٹو بیا گریفی لکھنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ انگریزی نظمیں لکھ کر وہ اپنا دل بہلاتا۔ مگر تین ماہ بعد ۸ اکتوبر ۱۹۹۰ کو پر یا جیت کا بھی انتقال ہو گیا۔
پر یا جیت لاہا کی نظمیں اس کی موت کے بعد شائع کی گئی ہیں۔ اس کی ایک نظم کی دولائنیں یہ ہیں ___بہترین ڈاکٹر بھی آخر کار اپنے مریضوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وقت آنے پر ہر عمارت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے:
Even the best doctors finally lose their patients. Buildings crumble in time.
اس قسم کی تفصیلات بتاتے ہوئے رپورٹ میں یہ الفاظ درج ہیں کہ اس طرح تین مہینے کے اندر دونوں بھائی، جن میں سے ہر ایک ممتاز حیثیت کا مالک تھا اور جن کے لیے شاندار مستقبل متوقع تھا، وہ اس دنیا سے چلے گئے، اس کے بغیر کہ وہ اپنی آرزووں کو پورا کر سکیں
Thus within the space of three months the two brothers, both remarkable in their own ways and with promises of bright futures, departed without being able to fulfill their ambitions.
اس دنیا میں کسی چیز کو پائداری حاصل نہیں۔ یہاں کھڑی کی جانے والی تمام عمارتوں کے لیےمقدر ہے کہ ایک روز وہ ڈھ پڑیں۔ مگر کبھی کسی عمارت کو بنتے ہی گرا دیا جاتا ہے تا کہ لوگ چوکنّے ہوں اور غافل لوگ بھی ہونے والے واقعہ پر دھیان دے سکیں۔
یہاں ہر پیدا ہونے والا آخر کار مر جاتا ہے۔ مگر بعض افراد کو کم عمری ہی میں موت دے دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور جو لوگ بے ہوشی میں پڑے ہوئے ہیں وہ بھی ہوش میں آکراپنی اصلاح کر لیں۔
یہاں ہر آدمی کی آرزوئیں غیر تکمیل شدہ رہ جاتی ہیں، یہاں بڑے سے بڑا آدمی بھی اپنی تمناؤں کو اپنے سینہ میں لیے ہوئے اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ تاہم کبھی اس حقیقت کو مزید کھولنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے کہ کسی شخص کو مذکورہ صورت میں اٹھا لیا جاتا ہے تاکہ اس معاملے کی انتہائی مثال دنیا میں قائم ہو اور اندھے لوگ بھی اس کو دیکھیں اور بہرے لوگ بھی اس کو سن لیں۔
ایک بچے کے ساتھ جب مذکورہ قسم کا واقعہ پیش آتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ ایک نو عمر بچے کا کیا قصور تھا کہ اس کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آیا۔ مگر اصل مسئلہ" قصور" کا نہیں ہے، بلکہ خدا کے تخلیقی منصوبے کا ہے۔ یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اس حقیقت کو بتانے کے لیے خالق کائنات نے مختلف انتظامات کیے ہیں۔ انھیں میں سے ایک انتظام یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں زندگی کی غیر مستقل حیثیت کو بتانے کے لیے انتہائی مثال قائم کر دی جائے۔ نوعمری کی موت اسی قسم کی ایک انتہائی مثال ہے۔
موت اور حادثے کے واقعات آنکھیں کھولنے کے لیے پیش آتے ہیں۔ عقل مند وہ ہے جو ان واقعات سے سبق لے۔ نادان وہ ہے جو غیر متعلق سوالات میں الجھ کر رہ جائے۔