تربیتی ضمیمہ

ہندستان میں مالی بدعنوانی بہت زیادہ پائی جاتی ہے ۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے۔ چنانچہ ملک  کےسیاسی ذمہ دار، مذہبی پیشوا اور دانشور طبقہ مسلسل اس کے خلاف لکھتا اور بولتا رہتا ہے۔ مگر یہاں کی مالی بدعنوانیوں میں ایک فی صد بھی کمی نہ ہوسکی۔

اس کی وجہ کیا ہے ۔ نراد چودھری نے بجا طور پر لکھا ہے کہ اس کی وجہ ہندو قوم کی دولت پرستی ہے۔ ہندو عقیدہ کے مطابق، دولت ایک معبود ہے اور لکشمی دیوی کی صورت میں ہر ہندو اس کی پرستش کرتا ہے ۔ ایسی صورت میں ناممکن ہے کہ محض دولت کے خلاف اپدیش دینے سے دولت پرستی کا خاتمہ ہو جائے۔ یہ ذہن بدلنے کا معاملہ ہے نہ کہ محض اخلاقی نصیحت کرنے کا۔

 عجیب بات ہے کہ یہی خرابی موجودہ زمانہ کے اسلام پسندوں میں ایک اور شکل میں پائی جارہی ہے۔ اس کی ایک مثال جماعت اسلامی کا معاملہ ہے۔ جماعت اسلامی کے سنجیدہ حلقہ میں پچھلے پچاس برس سے یہ احساس پایا جاتارہا ہے کہ جماعت کے افراد میں سیاسی ذوق تو خوب ابھرتا ہےمگر روحانی ذوق ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔

جماعت کے ذمہ داروں نے اس مسئلہ کا حل "تربیت " میں تلاش کیا ہے ۔ غالباً ۱۹۵۳ میں جماعت اسلامی کے مرکز (ر امپور) کے تحت پہلا تربیتی کیمپ قائم کیا گیا۔ اس کے انچارج مولانا سید حامد علی تھے۔ اس کے تحت "بیچ "کی صورت میں کچھ افراد کو پندرہ پندرہ دن کے لیے    بلایا جا تا تھا۔ اور ان کو تربیتی کورس سے گزارا جاتا تھا۔مگر چند ہی بیچ کے بعد محسوس ہوا کہ یہ بے فائدہ ہے۔ چنانچہ اس پروگرام کو ختم کر دیا گیا۔

اب جماعت اسلامی کی نئی قیادت کے تحت اس کو دوبارہ اس طرح زندہ کیا گیا ہے کہ جماعت کے مرکز (دہلی ) میں جماعت کے ایک بزرگ کو "نائب امیر برائے تربیت "مقرر کیا گیا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ صرف سادہ لوحی ہے ۔ یہ ماضی کی غلطی کو حال میں دہرانا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی اور حقیقت نہیں (دعوت ۲۸ مئی ۱۹۹۰)

 جماعت اسلامی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بانی مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودی نے اسلام کی تعبیر خالص سیاسی انداز میں کی۔ حتی کہ انھوں نے اذان اور نماز اور روزہ جیسے روحانی عمل کو بھی سیاسی عمل بنا کر دکھایا ۔ جماعت اسلامی کے افراد کا ذہن  اسی قسم کے سیاسی لٹر یچر کو پڑھ کے بنا ہے۔ وہ اسلام کے پورے معاملہ کو سیاسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایسی حالت میں عین فطری بات ہےکہ  جماعت کے افراد میں سیاسی مزاج ہو ، ان کے اندر روحانی مزاج نہ ہو ۔ اگر آپ ببول کا بیج بوئیں تو اس سے آم کے پھل کی امید کر نا احمقانہ خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔

 تربیت بذات خود ایک اسلامی عمل ہے اور اس کو قرآن میں تزکیہ کہا گیا ہے (ویزکّیھم) مگر تربیت (یا تزکیہ ) اس وقت مفید ہوتا ہے جب کہ وہ فکری یا ددہانی کے لیے    ہو۔ جس کا مقصد یہ ہو کہ وہ آدمی کو اس کا ایک بھولا ہوا سبق از سر نو یاد دلایا جائے۔

مگر جماعت اسلامی کے معاملہ میں اصل مسئلہ فکر ی یاد دہانی کا نہیں بلکہ فکری تغییر کا ہے ۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے لٹریچر نے جماعت کے افراد کے فکری ڈھانچہ کو سیاسی ڈھانچہ بنا دیا ہے جو روحانی ڈھانچہ کی عین ضد ہے ۔ جب تک اس سیاسی ڈھانچہ کو توڑا نہ جائے ، روحانی سبق کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے آدمی کے ذہن پر سیاست کا ڈاٹ لگا ہوا ہوتا ہے۔ اس ڈاٹ کو توڑنے کے بعد ہی ذہن کے اندر کوئی نئی چیز داخل ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے نہیں۔

اگر آپ کہیں کہ "دین سے مراد اسٹیٹ ہے" تو یہ نظریہ آدمی کے اندر صرف سیاسی انداز فکر پیدا کرے گا۔ اس کے بعد یہ کہنا کہ "اسٹیٹ قائم کرنے کے لیے    صالح افراد درکار ہوتے ہیں۔ اس لیے    لوگوں کو چاہیے     کہ وہ اللہ سے ڈریں تاکہ اچھی اسٹیٹ قائم کرسکیں"۔ تو یہ سیاسی ہاتھی کے دم میں روحانیت کا پتنگ باندھنا ہو گا۔ اس قسم کے تربیتی پیوند کے ذریعہ کبھی کسی کے اندر روحانیت کا طوفان برپا نہیں ہو سکتا۔

 اس کے برعکس اگر آپ یہ کہیں کہ" دین یہ ہے کہ آدمی اللہ سے ڈرے" ۔ تو یہ عقیدہ آدمی کے اندر روحانی ہلچل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ جو لوگ اس فکر سے متاثر ہوں گے، وہ اپنے ابتدائی تاثر ہی کے اعتبار سے روحانی انسان بن جائیں گے ۔ آدمی کی ذہنی تربیت ہمیشہ وہ فکر کرتا ہے جس نے اس کے ذہن کو بیدار کیا ہے۔ نہ کہ کسی قسم کا تربیتی ضمیمہ۔

 جماعت اسلامی کے افراد کی تربیت حقیقۃ ً  یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ یہ اعلان کیا جائےکہ مولانا ابوالاعلی مودودی نے اسلام کی جو سیاسی تعبیر کی وہ سراسر غلط تھی۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کے افراد کو ہدایت کی جائے کہ وہ قرآن کو قرآن کے ذریعہ پڑھیں نہ کہ تفہیم القرآن کے ذریعہ ۔ اس طرح کی انقلابی کوششوں سے تو یقیناً جماعت کے افراد کی تربیت ہو سکتی ہے ۔ مگر موجودہ فکری حالت کو باقی رکھتے ہوئے "محکمۂ تربیت" قائم کرنے کا کسی بھی درجہ میں کوئی فائدہ نہیں ۔ جماعت اسلامی کا سیاسی نظریہ محرک روحانیت کو ختم کر دیتا ہے۔ اور محرک روحانیت کو ختم کرنے کے بعد کسی تربیتی ضمیمہ کے ذریعہ آدمی کے اندر روحانیت پیدا نہیں کی جا سکتی۔

آدمی کا کر دار آدمی کے فکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی آدمی کے اندر جس ڈھنگ کی فکر ی اٹھان ہوگی اسی ڈھنگ کا کردار اس کے اندر پیدا ہو گا سیاسی تحریکوں سے وابستہ افراد کی فکری اٹھان سیاسی انداز پر ہوتی ہے۔ اس لیے    ان کے اندر جو اخلاق وکردار پیدا ہوتا ہے وہ بھی سیاسی انداز کا ہوتا ہے، ایک گروہ جس کے افراد کی فکری اٹھان سیاسی نظریات پر ہوئی ہو ، ان کے اندر کسی تربیتی ضمیمہ کے ذریعہ غیر سیاسی کر دار لایا نہیں جاسکتا۔

جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کی فکری اٹھان اسلام کی سیاسی تعبیر پر ہوئی ہے۔ وہ جماعت اسلامی کی طرف اسی لیے    راغب ہوئے کہ وہ اسلام کو سیاسی نظام کے روپ میں پیش کر رہی تھی ۔ اس تحریکی عمل کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ ان کے اندر سیاسی مزاج اور سیاسی کردارابھرے ، جیسا کہ واقعۃ ً  ہوا۔

 اب یہ ناممکن ہے کہ کسی قسم کے تربیتی ضمیمہ کے ذریعہ ان لوگوں کے اندر روحانی یا غیر سیاسی کر دار پیدا کیا جائے۔ جماعت اسلامی کے افراد کے موجودہ فکری ڈھانچہ کو باقی رکھتے ہوئے "تربیتی ضمیمہ "کے ذریعہ ان کے اندر روحانیت لانے کی کوشش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص   ببول کا درخت بوئے اور جب وہ بڑا ہو کر ببول کا پھل دینے لگے تو وہ چاہے کہ اس کی شاخوں میں آم کا پھل لٹکا کر اس کو آم  کا درخت بنا دیا جائے ۔

سری نگر، کشمیر میں الرسالہ اور اسلامی مرکز کی کتابوں کے لیے    مندرجہ ذیل پتہ پر ربط قائم کریں۔

Abdullah News Agency 1st Bridge, Lal Chowk Srinagar 190 001

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom