دس سال خاموش

خلافت تحریک بیسویں صدی کے آغاز میں اٹھی اور ۱۹۲۴ میں آخری طور پرختم ہو گئی۔ تقریباً  دس سال تک ہندستانی مسلمانوں میں اس کا ہنگامہ جاری رہا۔ مولانا اشرف علی تھانوی (۱۹۴۳ - ۱۸۶۳) غالباً و احد نمایاں شخص تھے جو اس کے مخالف تھے اور اس پر سخت تنقید کرتے تھے۔

مولانا تھانوی کے ملفوظات میں ہے کہ "جس زمانہ میں تحریک خلافت کا شباب تھا، شورش پسند طبیعتیں جوش میں بھڑک رہی تھیں۔ چہار طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ علانیہ  برا بھلا کہنے اور لعن طعن اور قسم قسم کے بہتان و الزامات لگانے کی دھمکی کے خطوط میرے پاس آئے کہ یا تو شریک ہو جاؤ ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے"۔

مولانا تھانوی اس سلسلہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں تحریکِ خلافت کے ایک ممتاز حامی میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ اس تحریک میں شریک کیوں نہیں ہوتے۔ میں نے کہا کہ اس کام کو کرنے کے لیے    پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی امیر المومنین ہو۔ اس شرط کی تکمیل کے بغیر یہ ساری تحریک غلط ہے۔ وہ کہنے لگے کہ ہم آپ ہی کو امیر المومنین بناتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ میں امیر المومنین بننے کے لیے    تیار ہوں ۔ مگر اس میں کچھ شرائط ہیں۔

 مولانا تھانوی کی پیش کردہ پہلی شرط کا خلاصہ یہ تھا کہ تمام ہندستان کے مسلمان اپنا تمام مال اور جائداد میرے نام ہبہ کر دیں۔ کیوں کہ مال کے بغیر کوئی امیر المومنین کچھ نہیں کرسکتا۔

 دوسری شرط یہ ہے کہ "ہندستان کے تمام مشاہیر علماء اور لیڈروں کے دستخط کراؤ کہ وہ مجھ کو امیر المومنین تسلیم کر لیں۔ اگر بلا اختلاف سب نے تسلیم کر لیا تو میں امیر المومنین ہوں گا۔ اگر ایک نے بھی اختلاف کیا تو میں امیرالمومنین نہیں ہو سکتا۔ اس لیے    کہ اختلاف کی صورت میں امیر ،امیر نہیں ہو سکتا ۔ ہاں اگر تسلیم کے بعد پھر کوئی اختلاف یا خلاف کرے تو امیر کو حق ہے کہ وہ اپنی قوت سےایسے لوگوں کو دبائے اور ٹھیک کرے۔ قبل از تسلیم حق نہیں کہ اس کو دبایا جائے"۔

 اس کے بعد مولانا تھانوی نے کہا : "اب سنیے کہ امیر المومنین ہونے کے بعد سب سے اول جو حکم دوں گاوہ یہ ہوگا کہ دس سال تک کے لیے    سب خاموش ۔ ہرقسم کی تحریک اور ہر قسم کا شوروغل بند ۔ اس دس سال میں انتظام کروں گا مسلمانوں کو مسلمان بنانے کے اور ان کی اصلاح کے لیے    باقاعدہ انتظام ہو گا۔ غرض کہ مکمل انتظام کے بعد جو مناسب ہو گا حکم دوں گا۔ عملی صورت یہ ہے کام کرنے کی ۔ اور اگر محض کاغذی امیرالمومنین بنانا چاہتے ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آج امیرالمومنین ہوں گاکل کو اسیر الکافرین ہوں گا۔ آج سردار بنوں گا ، کل سرِدار ہوں گا"۔

مولانا تھانوی اس کے بعد کہتے ہیں : "خلاصہ یہ ہے کہ ہر کام اصول سے ہو سکتا ہے ۔ بے اصول تو گھر کا انتظام بھی نہیں ہوسکتا۔ ملک کا تو کیا خاک انتظام ہوگا۔ یہ ہیں وہ اصولی باتیں جن پر مجھ کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور قسم  قسم کے الزامات و بہتان میرے سر تھوپے جاتے ہیں اور لوگ مجھ سے خفا ہیں ۔ اور وجہ خفا ہونے کی صرف یہ ہے میں کہتا ہوں کہ اصول کے ماتحت کام کرو۔ جوش سے کام مت لو۔ ہوش سے کام لو ۔ جوش کا انجام خراب نکلے گا۔ حدود ِشرعیہ کی حفاظت رکھو ۔ وہ ان باتوں کو اپنے مقاصد میں روڑا اٹکا نا سمجھتے ہیں "۔ (الافاضات الیومیہ ، جلد اول، صفحہ ۱۰۴ - ۱۰۱ )

مولانا تھانوی کی ان انتہائی معقول باتوں کو کسی نے نہیں سنا۔ تمام مسلمان پر جوش خطیبوں کی آواز پر بے معنی دوڑ لگاتے رہے۔ اپنے زمانے کے مسلمانوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے مولانا تھانوی کہتے ہیں :مسلم عوام کی حالت یہ ہے کہ جس نے مرضی کے موافق فتویٰ دے دیا، یا کوئی عالم یا لیڈر  ان کے ساتھ ہولیا، اس میں سب کمالات ہیں۔ اس کو عرش پر پہنچا دیں گے ۔ اگر کسی نے مرضی کے خلاف کوئی بات کی تو تحت الثری میں اس کو جگہ ملنا مشکل ۔ غرض کہ ایک گڑ بڑ ہے۔ اور یہ طریقہ کار جو موجود ہے ، یہ سراسر اسلام اور شریعت سب کے خلاف ہے۔ اس کو اسلام اور مسلمانوں سے کیا تعلق( صفحہ ۱۱۱)

اس واقعہ سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیے     جو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا کوئی صحیح لیڈر نہیں۔ اصل بات یہ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر کسی صحیح آدمی کو اپنا لیڈر نہیں بناتے ۔ وہ جھوٹے الفاظ بولنے والوں کے پیچھے دوڑتے ہیں ، اور جو آدمی سچے الفاظ بولے، اس سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی۔ آج مسلمانوں کا حال ، قرآن کے مطابق ، یہ ہو رہا ہے کہ اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا راستہ نہ بنائیں گے اور اگر گم راہی کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا راستہ بنائیں گے (الاعراف: ۱۴۶)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom