تعمیر یا تخریب
"وفاق " پاکستان کا ایک روزانہ اخبار ہے جو لاہور، راولپنڈی، سرگودھا اور رحیم یارخان سے بیک وقت شائع ہوتا ہے۔ اس کے شمارہ ۱۰ مئی ۱۹۹۰ کے صفحہ اول پر ایک تصویر ہے جس میں مسلمانوں کا ایک ہجوم قہقہہ لگا رہا ہے اور پتھر اور لکڑی سے کسی چیز کو مار رہا ہے۔ اس تصویر کے نیچے یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں : جماعت اسلامی کے زیر اہتمام عریانی اور فحاشی کے خلاف مظاہرے ،مظاہرین ٹی وی سیٹ کو توڑ رہے ہیں۔
اس کے ساتھ خبر میں بتایا گیا ہے کہ" جماعت اسلامی کی انسداد منکرات مہم کے آخری روز حسن اسکوائر ، گلشن اقبال (کراچی) کے نزدیک علامتی طور پر ٹی وی کو سنگسار کر کے بے راہ روی ،عریانی اور فحاشی کے خلاف نفرت کا اظہار کیا گیا۔ ٹی وی سیٹ پر جب ایک ساتھ ہزاروں پتھر برسے توٹی وی ایک لمحہ میں چکنا چور ہو گیا۔ جماعت اسلامی کا یہ مظاہرہ اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد مظاہرہ تھا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے ۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے نائب امیر اور اسلامی جمہوری اتحاد کے سکریٹری جنرل پر وفیسر غفور احمد نے کہا کہ آج ٹی وی سیٹ تباہ کیا گیا ہے، لیکن اگر ٹی وی نے اپنی روش نہ بدلی تو کل عوام کے ہاتھ ٹی وی اسٹیشن کے در و دیوار تک پہنچ جائیں گے ۔ اگر ٹی وی نے اپنا رویہ نہ بدلا اور شیطانی کام کرتارہا تو شیطان کے ایجنٹوں کے ہاتھ توڑ دیےس جائیں گے "۔
تقریباً یقینی ہے کہ جن لوگوں نے ٹی وی سیٹ پر سنگ باری کر کے ٹی وی سیٹ کو توڑا، ان میں سے اکثر کے گھروں میں ٹی وی سیٹ موجود ہو گا۔ ایسی حالت میں یہ خود ایک شیطانی فعل ہے کہ چوک پر ایک ناکارہ ٹی وی سیٹ رکھ کر اس پر پتھرما رے جائیں اور یہ امید کی جائے کہ ملک سے ٹی وی کی برائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی وی کی برائی لوگوں کے اپنے اندر ہے نہ کہ ٹی وی اسٹیشن یا حکومتی ایوان کے اندر۔
اگر ٹی وی کی برائی کوختم کرنا ہے تو لوگوں کے دلوں کو بد لیے ، حکومت کے خلاف نعرہ لگانے سے ٹی وی کی برائی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ حتی کہ اگر حکومت پاکستان ٹی وی کے موجودہ تمام پروگراموں کو بند کر کے صبح و شام ٹی وی کے اوپر صرف تلاوت قرآن کے پروگرام نشر کرنے لگے تب بھی موجودہ حالت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
جنرل ضیا ءالحق کے طویل زمانہ حکومت میں اس کا ایک تجربہ کیا گیا اور مکمل طور پر ناکام رہا۔ مثلاً ضیاء الحق صاحب نے کہا کہ ہندستانی فلموں میں عریانی اور فحاشی ہوتی ہے ۔ چنانچہ انھوں نے پاکستان میں ہندستانی فلموں پر مکمل پابندی لگا دی۔ مگر اس کے بعد جو فرق ہوا وہ صرف یہ تھا کہ جس ہندستانی فلم کو اس سے پہلے لوگ پکچر ہاؤس میں یا ٹیلی وژن سیٹ پر دیکھتے تھے ، اس کو اب وہ ویڈیو کیسٹ کے ذریعہ خود اپنے گھر کے اندر وی سی آر پر دیکھنے لگے۔
جنرل محمد ضیاء الحق کو پاکستان میں ساڑھے گیارہ سال تک مکمل اقتدار حاصل رہا۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے لے کر ہندستان کے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی تک تمام لوگوں کے نزدیک وہ مرد حق اور مرد مومن تھے۔ مزید یہ کہ انھوں نے ٹیلی ویژن کی وزارت ( وزارت اطلاعات) پوری طرح جماعت اسلامی کو دے دی۔ جماعت اسلامی کا وزیر اطلاعات اور جنرل ضیاء الحق کا فوجی ڈنڈا دونوں مل کر پاکستان میں ٹیلی ویژن کی برائی کوختم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس کے باوجود ٹیلی ویژن کی برائی میں ایک فیصد بھی کمی نہیں ہوئی۔ بلکہ ایک اندازے کے مطابق اس میں مزید اضافہ ہو گیا۔
اس تجربہ نے واضح طور پر ثابت کیا کہ جماعت اسلامی اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا یہ نظریہ غلط ہے کہ ٹیلی ویژن( اور اس طرح کی دوسری سماجی برائیوں) کی اصلاح حکومت کی طاقت سے ہوتی ہے۔ اگر یہ اصلاح حکومت کی طاقت کے ذریعہ ہونے والی ہوتی تو وہ اس سے پہلے اس وقت ہوچکی ہوتی جب کہ جماعت اسلامی کے وزیر اطلاعات اور " مرد حق ضیا الحق " کو حکومت کی طاقت حاصل تھی۔ اور وہ اس کے ذریعہ ٹیلی ویژن (اور دوسری سماجی برائیوں) کو ختم کرنے کی مہم چلا رہے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگوں نے جو پتھر ٹیلی ویژن سیٹ پر مارے ، وہ پتھر انھیں خود اپنے آپ پر مارنا چاہیے ۔ انہیں چاہیے کہ جماعت اسلامی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بے بنیا د سیاسی نظریات کا ایک پتلا بنا ئیں اور پاکستان کے ہر چوک پر رکھ کر اس کو سنگسار کریں ۔ یہی بے بنیاد نظریہ پاکستان میں" ٹی وی" جیسی برائیوں کو ختم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔کیوں کہ جماعت اسلامی کے لوگ اگر اس بے بنیا د نظریہ میں گم نہ ہوتے تو وہ اپنی کوششوں کو سیاست کی چٹان پر ضائع نہ کرتے بلکہ اس کو افراد کی اصلاح میں لگاتے۔ اور پھر وہ مقصد اب تک حل ہو چکا ہوتا جو غلط مقام پر محنت کرنے کی وجہ سے حاصل نہ ہو سکا۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے انتہائی بے بنیاد طور پر یہ نظریہ بنایا کہ سماج کی یا سماجی شعبوں کی اصلاح حکومت کی طاقت سے ہوتی ہے، اس لیے حکومت کی طاقت پر قبضہ کر و ۔ جماعت اسلامی کے افراد اسی بے بنیاد نظریہ سے متاثر ہو کر پچھلے پچاس برس سے حکومت پر قبضہ کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
دلیل کے اعتبار سے یہ نظریہ پہلے ہی رد کیا جا چکا تھا۔ مگر تجربہ کے اعتبار سے وہ جنرل ضیاء الحق کےزمانۂ حکومت (۱۹۸۸ - ۱۹۷۷)میں رد ہو گیا ۔ اب اگر جماعت کے لوگ اپنی کوششوں کو مفید بنانا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے سابقہ سیاسی نظریہ کی غلطی کا اعلان کریں۔ اور اس کے بعد موجودہ تخریبی طریقوں کو چھوڑ کر خالص اصلاحی انداز میں افراد کی ذہنی تعمیر میں لگ جائیں۔ یہ اگر چہ ایک دیرطلب کام ہے ، اور اس میں عوامی لیڈری بھی نہیں ملتی، تاہم کسی معاشرہ میں کوئی حقیقی نتیجہ پیدا کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی دوسری تدبیر نہیں۔
حکومت کی طاقت سے سماجی برائیوں کو دور کرنا ، بظاہر ایک خوب صورت نظریہ ہے ۔ مگر وہ عملاًنا ممکن ہے ۔ اگر آپ انسان کو بدلے بغیر حکومتی سطح پر برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ برائی ایک نئی صورت میں قائم ہو جائے گی، وہ لوگوں کی زندگیوں سے ختم نہیں ہوسکتی۔
برائی کو ختم کرنے کے سلسلہ میں پہلا کام افراد کے اندر برائیوں کو چھوڑنے کی آمادگی پیدا کر ناہے ۔ اس آمادگی کو پیدا کرنے سے پہلے " انسداد منکرات "کے نام پر حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن چلانےسے منکرات کا انسداد تو نہیں ہوگا البتہ پور ا سماج تخریبی سماج بن جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام کی بھیڑ کو جمع کرکے چوراہہ پر ٹی وی سٹ کے اوپر پتھر مار نا صرف جھوٹی لیڈری ہے۔ سچا لیڈر وہ ہے جو عوام کو اس پر آمادہ کرے کہ وہ اپنے گھروں میں جا کر اپنا اپناٹی وی سٹ توڑ ڈالیں ۔ اور ایسا لیڈر سارے عالم اسلام میں کوئی ایک بھی نہیں۔
امریکہ میں الرسالہ اور اسلامی مرکز کی کتابوں کے لیے مندرجہ ذیل پتہ پر رابطہ قائم کریں۔
Mr. Khaja Kaleemuddin New York Tel. 718-258 3435