آخری فیصلہ
مہاراشٹر ہائی کورٹ کے ایک جج نے ایک وکیل کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جو وکیل کے نزدیک قابلِ اعتراض تھی ۔ جلد ہی دوسرے وکیلوں نے اس کا ساتھ دیا ۔ مہاراشٹر اور گواکی بارکونسل کی ایک ہنگامی میٹنگ کی گئی۔ اس میں متفقہ طور پر ایک رزولیوشن پاس کیا گیا کہ جج نے جو کچھ کہا، وہ اس کے دائرہ سے باہر تھا ، اس بنا پر وہ اس قابل ہے کہ اس کی مذمت کی جائے ۔
اس واقعہ پر ٹائمس آف انڈیا (۲۸ اپریل ۱۹۹۰) نے ایک نوٹ شائع کیا ہے ، اس نوٹ کا عنوان با معنی طور پر یہ ہے –––––– فیصلہ کرنے والے کا فیصلہ کیا گیا :
Judge judged
میں نے اس کو پڑھا تو مجھے خیال آیا کہ یہی واقعہ زیادہ بڑے پیمانہ پر آخرت میں ہونے والا ہے ۔ آخرت وہ دنیا ہے جہاں
تو لنے والے تو لے جائیں، جہاں فیصلہ کرنے والوں کے اوپر دوبارہ فیصلہ کیا جائے ۔
موجودہ دنیا میں کسی شخص کو ایک عہدہ حاصل ہے ۔کسی کو شہرت اور مقبولیت مل گئی ہے۔ کوئی پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا پر قبضہ کیے ہوئے ہے ۔ کوئی شخص کسی اور قسم کی طاقت کا مالک ہے ۔ ان حیثیتوں کا فائدہ اٹھا کر ایک شخص دوسرے شخص کو مجرم ثابت کر رہا ہے۔ ایک گروہ دوسرے گروہ کو برا بتا کر اس کی حیثیت کو لوگوں کی نظر میں بگاڑے ہوئے ہے ۔
اس قسم کے تمام فیصلے اور پروپیگنڈے وقتی ہیں۔ یہ صرف اس وقت تک باقی رہنے والے ہیں جب تک کہ خداوند ذو الجلال ظاہر نہ ہو جائے جو تمام ججوں کا جج اور تمام فیصلہ کرنے والوں کے اوپر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ جب خدا ظا ہر ہو گا تو وہ عین عدل اور انصاف کی بنیاد پر ہر ایک کا فیصلہ فرما دے گا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آج تو اللہ تعالٰی حق اور ناحق اور صحیح اور غلط کو صرف اعلان کے درجہ میں لوگوں کو بتا رہا ہے۔ پھر جب اللہ کا حکم آئے گا تو وہ حق کے مطابق ہر ایک کا فیصلہ کر دے گا۔ اس دن سچے لوگ سر خرو ہوں گے اور غلط کار لوگ گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے (المومن: ۷۸)