سفرنامہ – ۲
ایک صاحب نے گفتگو کے دوران بتایا کہ دکار میں دو ہزار مسجدیں ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ کیا تمام مسجدیں آباد ہیں۔ انھوں نے پر مسرت لہجہ میں کہا : سنغاليون متدينون وهم متحمسون لدينهم الحنيف (سینیگال کے لوگ دین دار ہیں اور وہ اپنے دین میں پختہ ہیں)
ایک مرتبہ میں نے دکار کی ایک سڑک پر دیکھا کہ ایک فرانسیسی خاتون سڑک پر پیدل چل رہی ہے اور اس کی گود میں کتّے کا ایک بچہ ہے جس کو وہ عین اسی طرح لیے ہوئے ہے جس طرح کوئی ماں اپنے بچے کو اپنے سینہ سے چمٹائے ہوئے رہتی ہے ۔ مغرب کی عورت نے انسانی بچہ کو گود میں لینا فیشن کے خلاف سمجھا۔ مگر اس کے بعد جو ہوا وہ صرف یہ کہ اس نے کتّے کے بچے کو اپنی گود میں لے لیا۔ یہ دراصل فطرت کا تقاضا ہے جو عورت کو ایسا کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس نے انسانی بچہ کو چھوڑا تھا مگر اس کے بعد فطرت نے اس کو حیوانی بچہ سنبھالنے پر مجبور کر دیا ۔
روانگی سے پہلے دہلی میں میں نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں دکار (Dakar) کا صفحہ دیکھا۔ اس میں ایک نہایت خوب صورت عمارت کی تصویر بنی ہوئی تھی اور بتا یا گیا تھا کہ یہ صدارتی محل ہے جو سمندر کے کنارے بنا ہوا ہے ۔ ۶ مئی کو شہر کے مختلف مقامات دیکھنے کے دوران مذکورہ "صدارتی محل " دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ جب میں اس عمارت کے سامنے کھڑا تھا تو مجھے یقین نہیں آر ہا تھا کہ یہ وہی محل ہے جس کی تصویر میں نے دہلی میں کتاب میں دیکھی تھی ۔ تصویر میں جو عمارت نہایت عظیم نظر آئی تھی ، وہ حقیقی طور پر دیکھنے میں مقابلۃ ً معمولی نظر آنے لگی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ حقیقت کے مقابلہ میں تصویر ہمیشہ زیادہ عظیم دکھائی دیتی ہے ۔ بیشتر لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے۔ اس لیے وہ تصویر کو حقیقت سمجھ کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ مگر جب وہ اس کو پالیتے ہیں تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ اب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جو حقیقت انھوں نے پائی ہے وہ اس سے بہت کم ہے جو" تصویر" کی صورت میں انھوں نے پہلے دیکھی تھی۔
ایک بات یہ محسوس ہوئی کہ یہاں وہ بدعت نہیں ہے جو ہندستان اور پاکستان میں عام طور پر پائی جاتی ہے۔ یعنی مسلم ملکوں کی سیاسی رقابتوں کا اثر دینی حلقوں پر ۔ وہاں ہر دینی حلقہ کسی ایک کا قصیدہ خواں بن کر دوسرے کے اوپر" لؤم و شؤم" کی لفظی بارش برسا رہا ہے ۔ یہاں کے دینی لوگ سیاست سے قطع نظر کرتے ہوئے ، ہر مسلم ملک سے یکساں تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ مثلاً د کارمیں ایک اسلامی مرکز عراق کے تعاون سے بنا ہے، اگر چہ ابھی وہ ناتمام ہے۔ شیخ عبدالعزیز سی نے یہاں مجھے ایک مسجد دکھائی جو پہلے خستہ تھی، اب وہ شاندار طور پر بنی ہوئی کھڑی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس مسجد کی تعمیر نو کی ضرورت تھی۔ چنانچہ میں سعودی عرب گیا، وہاں مجھے کافی مدد لی ۔ اس سے میں نے یہ مسجد تعمیر کرائی ۔ اسی طرح ایک اور اسلامی ادارہ ہے جو لیبیا کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔ دینی حلقوں کے لیے یہی انداز زیادہ مناسب ہے۔
یہ ہوٹل دس منزلہ ہے۔ اس اعتبار سے اس کی لفٹ میں ایک سے لے کر دس تک نمبر لگے ہوئےہیں۔ ہر آدمی اپنا مطلوبہ نمبر دبا کر اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
ایک روز لفٹ میں جاتے ہوئے مجھ پر ایک تجربہ گزرا۔ میں لفٹ کے اندر داخل ہو اتو میرے ساتھ تین آدمی اور بھی آگئے۔ کسی کو نویں منزل پر جانا تھا، کسی کو دسویں منزل پر ۔ ان لوگوں نے سبقت کر کے اپنا اپنا نمبر دبا دیا۔ بورڈ پر نمبر ۹ اور نمبر ۱۰ کی گنتیاں روشن ہوگئیں ۔ مجھے نمبر ۲ پر جانا تھا۔ میں نے بعد کو اپنا بٹن دبا دیا۔ بٹن دبانے کی ترتیب کے لحاظ سے بظا ہر لفٹ کو پہلے نویں اور دسویں منزل پر جانا چاہیے تھا۔ مگر لفٹ نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے پہلےمجھ کو دوسری منزل پر اتا را۔ اس کے بعد وہ نویں اور دسویں منزل کے مسافروں کو اتارنے کے لیے اوپر گئی۔
اونچی بلڈنگوں کے لیے یہ روز مرہ کا عام واقعہ ہے ۔ لوگ اس کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس پر غور کریں ۔ مگر میرا ذہن فوراً ٹھٹک گیا۔ میں نے سوچنا شروع کیا کہ لفٹ نے ایسا کیوں کیا کہ اس نے بٹن دبانے کی بے ترتیبی کو بطور خود درست کیا اور صحیح ترتیب کے ساتھ مسافروں کو ان کی منزل پر پہنچایا میرے ذہن نے جواب دیا کہ اس کا سبب کمپیوٹر ہے۔ موجودہ زمانہ کی آٹو میٹک لفٹ کے ساتھ کمپیوٹر لگا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے "مشینی دماغ " کے ذریعہ بے ترتیبی کو ترتیب میں بدلتا ہے۔ وہ لفٹ کو "حکم" دیتا ہے کہ بے ترتیب طور پر بٹن دبائے جانے کے باوجود وہ اپنے مسافروں کو حقیقی ترتیب کے ساتھ ان کی منزل پر اتا رے ۔
اس دنیوی منظر کو دیکھ کر اچانک میرا ذہن آخرت کی طرف چلا گیا۔ میں نے کہا کہ یہی واقعہ جو مخلوق کی سطح پر ابتدائی درجہ میں پیش آرہا ہے، یہی آئندہ خالق کی سطح پر کامل درجہ میں پیش آئے گا۔
موجودہ دنیا میں بظا ہر حقیقی ترتیب بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔ کہیں اول درجہ کا آدمی پیچھے ہے اور تیسرے درجہ کا آدمی آگے۔ اہل شخص بے زبان بنا ہوا ہے اور نا اہل لوگ اخبار اور اسٹیج پر نمایاں ہو رہے ہیں ۔مستحق لوگ ناداری میں پڑے ہوئے ہیں اور غیر مستحق افراد ہر قسم کے وسائل پر قابض ہیں۔ یہ گویا مصنوعی ترتیب ہے جو موجودہ دنیا میں قائم ہو گئی ہے۔ آخرت میں خدا ظاہر ہو کر اس ترتیب کو ختم کر دے گا۔ وہ نمبر ایک کو نمبر ایک پر کر دے گا اور بقیہ نمبروالوں کو ان کے حقیقی نمبر کی طرف جانے پر مجبور کر دے گا۔
کھانے کے وقت ایک بار سینیگال کے ایک صاحب میری میز کی دوسری طرف تھے۔ انھوں نے اپنے ملک کے بارے میں بہت سی باتیں بتا ئیں ۔ ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ یہاں ایک درخت پایا جاتا ہے۔ اس کی پتی کو چائے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک مشروب ہے بلکہ وہ نہایت مفید ہے ( أوراق تغلی و تشرب كالشاي و هي مفيدة جداً)
مشہور ہے کہ ایک شخص نازک بیماری میں مبتلا تھا۔ علاج سے وہ اچھا نہیں ہوا۔ ایک روز وہ گھبرا کر بستی کے باہر چلا گیا اور اس نے مذکورہ درخت کی بہت سی پتی کھالی ۔ اگلے دن اسے اپنے مرض میں افاقہ محسوس ہوا۔ اس کے بعد وہ مزید کچھ دنوں تک اس کی پتی کھا تا رہا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہو گیا۔ یہ قصہ مشہور ہوا تو لوگ اس درخت کی پتی کو مختلف صورتوں میں استعمال کرنے لگے ۔ اب اس کی مقبولیت کی بنا پر ایسے کارخانے بن گئے ہیں جہاں اس کی پتی کو پروسس کیا جاتا ہے اور اس کو پیک کر کے چائے کی طرح سپلائی کیا جاتا ہے۔ کھانے کے بعد میرے ساتھی نے کافی منگائی مگر میں نے اس مقامی مشروب کا آڈر دیا ۔ یہ کافی لطیف اور مفید تھا۔ میں جب تک یہاں رہا میں اس کو پیتا رہا۔ اس کا نام کن کلی با (Kinkelibah) ہے ۔ اس کے پیکٹ، پر حسب ذیل پتہ لکھا ہوا تھا :
Enterprise Senegalaise de, B.P. 10.101.
Ouagou Niayes. Dakar, Senegal. West Africa.
محمدمصطفی سی( مفتش فی تعلیم اللغۃ العربیۃ )نے بتایا کہ سینیگال میں عیسائی اگرچہ بہت کم ہیں۔ پانچ فیصد سے بھی کم مگر یہاں چرچ بہت منظم ہے۔ یہاں کے بہترین اسکول اور اسپتال انھیں لوگوں نے قائم کر رکھے ہیں ۔ وہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی بہت کوششیں کرتے ہیں ، مگر اس میں وہ کامیاب نہیں ۔
دوسری طرف مسیحی ( ان کے غریب طبقہ کے لوگ) برابر مسلمان ہوتے رہتے ہیں ۔ انھوں نے بتا یا کہ میں نے آج ہی ایک مسیحی کو مسلمان بنایا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق، یہ مسیحی کسی تبلیغ کے بغیر اپنے آپ مسلمان ہوتے رہتے ہیں۔
ہوٹلوں میں طرح طرح کی چیزیں کھانے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہاں بھی یہی صورت حال تھی کہ صبح کو اکثر میں ہنی پاپ (honey pops) لیا کرتا تھا۔۷ مئی کی صبح کو ناشتہ کے لیے ہوٹل کے طعام خانہ میں گیاتو وہاں ہنی پاپ کا ڈبہ دکھائی نہیں دیا۔ وہاں جوڈ بے رکھے ہوئے تھے ان پر ہنی پاپ کے بجائےمیل پاپ (miel pops) لکھا ہوا تھا۔ میرے تجسس کو دیکھ کر ہوٹل کا آدمی قریب آیا۔ اس نے کہا آپ کیا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آج یہاں ہنی پاپ کے ڈبے نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ میل پاپ وہی چیزہے۔ میل (miel) فرانسیسی زبان میں شہد (honey) کو کہتے ہیں۔
میں نے سوچا کہ اسی طرح اکثر آدمی لفظوں سے دھوکہ کھاتا ہے۔ مثلا ایک آدمی"مذہب امن" کی تلاش میں ہے۔ اب آپ اس کے سامنے "اسلام " پیش کرتے ہیں ۔ وہ اس کو اپنے ذہنی تصور کے مطابق کوئی دوسری چیز سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔ حالاں کہ اگر وہ حقیقت ِحال سے واقف ہو تو اس کو معلوم ہوگا کہ مذہبِ امن کے نام سے وہ جس چیز کی تلاش میں ہے وہ عین وہی چیز ہے جس کا نام اسلام ہے۔ اگر چہ مسلمانوں نے اپنا قومی لیبل لگا کر اس کی ظاہری صورت مشتبہ بنادی ہے۔
سینیگال کے ایک صاحب نے بتایا کہ اس ملک میں اسلام گیارہویں صدی عیسوی میں آیا ہے۔ یعنی صحابہ کے دور کے بعد ۔ یہاں کے مسلمان عام طور پر نہایت سادہ مزاج ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر فطری اوصاف زندہ ہیں۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ کوئی سینیگالی اپنے وطن سے باہر ملک کی کسی دوسری بستی میں جائے تو وہاں وہ کبھی ہوٹل میں نہیں ٹھہرتا۔ کیوں کہ مقامی لوگ اس کو اپنا مہمان بنا نا پسند کرتے ہیں۔ ہوٹلوں میں زیادہ تر باہر کے لوگ ٹھہرتے ہیں۔ ایک سینیگالی کھانا کھا رہا ہو تو اس وقت اس کو جو شخص بھی ملے وہ بے تکلف اس کو کھانے میں شریک کرلے گا۔
میں نے اپنے کمرہ میں کھڑے ہو کر سمندر کی طرف دیکھا ۔ حد نظر تک سمندر کا پانی موجیں مار رہا تھا اور اس سے ایک قدرتی موسیقی فضا میں بلند ہو رہی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ آج کا زمانہ معلومات کے اعتبار سے ، قدیم زمانے سے کتنا مختلف ہے۔
ابن خلدون نے لکھا ہے کہ زمین کا آدھا حصہ خشکی ہےاور آدھا حصہ پانی ۔ یہ اس خیال کا اعادہ ہے جو حکماءیونان کے زمانے سے ابن خلدون تک چلا آرہا تھا۔ مگر آج اسکول کا ایک طالب علم بھی جانتا ہے کہ نصف نصف کا یہ نظریہ درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہماری زمین کی سطح کے ۷۱ فی صد حصہ پر سمندر کا پانی پھیلا ہوا ہے اور بقیہ ۲۹ فی صد حصہ خشکی ہے۔
اس معلوماتی فرق کی بنا پر کچھ ترقی پسند لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب انسان کو نئے مذہب کی ضرورت ہے۔ مگر یہ ایک لغو بات ہے ۔ کیوں کہ مذہب کا تعلق اس مسئلہ سے نہیں ہے کہ زمین پر خشکی اور تری کا تناسب ۵۰ - ۵۰ فیصد ہے یا ۷۱ - ۲۹ فیصد۔اس قسم کی معلومات کی کوئی حد نہیں۔ انسان نے جتنا آج جانا ہے ، اس سے بہت زیادہ وہ ہے جس کو وہ ابھی تک جان نہ سکا۔ مثلاً بلیک ہول کا نظریہ بتاتا ہے کہ کائنات کا صرف تین فیصد انسان کے لیے قابل مشاہدہ ہے، بقیہ ۹۷ فیصد حصہ انسان کے لیے قابلِ مشاہدہ نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کا انحصار اس قسم کی معلومات پر نہیں ہے ۔ مذہب کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی خدا کی خالقیت اور مالکیت کو تسلیم کر کے اس کے آگے جھک جائے ۔ اس اعتبار سے ہر دور کا مذہب صرف ایک ہے، اس میں زمانہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ۔
سینیگال کے عام لوگ مقامی بولی (اُلف) میں بات کرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ لوگ یا فرنچ بولتے ہیں یا عربی زبان ۔ یہ زبانوں کا فرق بھی بڑا عجیب ہے۔ مثلاً ہوٹل کے آدمی کو کلمۂ ترحیب اگر اردو میں کہنا ہو تو وہ کہے گا کہ ہم نو ووٹل میں آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ اس بات کو انگریزی اور فرنچ میں اس طرح کہا جائے گا :
We welcome you in Novotel. (English)
Nous vous souhaitons la bienvenve Novotel (French)
ایک مرتبہ میں سوچنے لگا کہ اگر ساری دنیا کی زبان ایک ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ پھر سمجھ میں آیا کہ کئی زبان ہونا ہی زیادہ بہتر ہے ۔ کیوں کہ اس سے مسابقت کی تحریک ہوتی ہے اور ہر ایک آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب کسی آدمی میں آگے بڑھنے کا جذبہ ابھرتا ہے تو وہ صرف ایک معاملہ تک محدود نہیں رہتا۔ وہ زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی اپنے آپ اپنا اثر ظاہر کرتا ہے ۔ مثلاً ابتدائی دور کے مسلمانوں میں اولاً کتابت قرآن اور تدوین حدیث کے لیے علم کا جذبہ ابھرا۔ مگر جب علم کا جذبہ ابھر آیا تو پھر اس نے دوسرے تمام علوم میں بھی مسلما نوں کو آگے بڑھا دیا۔
انیسویں صدی کے کچھ مغربی مفکرین نے ایک معاشی یوٹوپیا بنا نا چاہا جہاں ہر ایک کو برا بر برابر رزق مل رہا ہو۔ یہ فرضی سوسائٹی موجودہ دنیا میں محال ہے کیونکہ وہ تخلیق کے نظام سے ٹکراتی ہے۔ تاہم اگر بالفرض ایک سماج بن جائے تو تمام ترقیاں ٹھپ ہو کر رہ جائیں گی۔ کیونکہ ترقی کا جذبہ ہمیشہ"فرق " کو دیکھ کر ابھرتا ہے اور جب فرق ہی باقی نہ رہے تو ترقی کا جذبہ کیوں کر پیداہوگا۔
ایک بار ہوٹل کے لاونج میں کچھ افریقی مقامی زبان میں بات کر رہے تھے۔ میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس کے بعد ہوٹل کے باہر نکلا تو جھاڑی میں ایک بلی تھی ۔ اس نے "میاؤں میاؤں" کی آواز نکالی۔ اچانک خیال آیا کہ جانور تمام دنیا میں ایک ہی انداز پر بولتے ہیں۔ کوئی جانورجس طرح ہندستان میں بولتا ہے ، ٹھیک اسی طرح وہ یورپ اور افریقہ میں بھی بولتا ہے۔ا گر انسان کی بولیاں الگ الگ ہیں۔ حتی کہ دنیا بھر میں ان کی کئی ہزار بولیاں ہوگئی ہیں۔
پھر خیال آیا کہ یہ انسان کے حالت ِامتحان میں ہونے کا ایک پہلو ہے۔ جانوروں کا کوئی امتحان نہیں۔ اس بنا پر ان کی ہر نوع کے لیے ایک ہی بولی مقرر کر دی گئی ۔ مگر انسان اس امتحانی میزان پر کھڑا کیا گیا ہے کہ وہ خود اپنے ارادے سے متحد ہو ۔ وہ اختلاف کے باوجود اتحاد کا ثبوت دے، جانوروں سے امتحان مطلوب نہ تھا ، اس لیے انھیں از اول تا آخر حالت اتحاد میں رکھا گیا۔ اس کے برعکس انسان سے امتحان مطلوب تھا۔ اس لیے انھیں حالت اختلاف میں ڈال دیا گیا۔ اورپھر کہا گیا کہ تم اپنے اختلاف کو نظر انداز کرتے ہوئے اتحاد کا ثبوت دو۔
الشیخ عبد العزیز سی (عمر ۶۳ سال )یہاں کی ممتاز دینی شخصیت ہیں۔ ان کی مادری زبان اگر چہ اُلف ہے ۔ مگر وہ روانی کے ساتھ عربی بولتے ہیں۔ انھوں نے "تجوّل "کی پیش کش کی۔ چنانچہ ان کے ساتھ شہر گھومنے کے لیے نکلا ۔
دکار کی سڑکیں نہایت عمدہ ہیں۔ ان کے دونوں طرف عمار تیں زیادہ تر فرانسیسی طرز کی نظر آتی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ سڑکیں غالباً فرانسیسیوں نے اپنے دورِ اقتدار میں بنائی تھیں۔ انھوں نےفوراً کہا : نعم ولكن بعد الاستقلال قمنا بالتجديد ( ہاں ،مگر آزادی کے بعد ہم نے ان کی تجدید کی ہے)
چلتے ہوئے ہم دکار کی سب سے بڑی مسجد جامع میں پہنچے۔ مگروہ مکمل طور پر بند تھی ۔ دروازہ پر تالا لگا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہاں عام مسجدوں میں پانچ وقت کی نماز ہوتی ہے اور وہ کھلی رہتی ہے۔ مگر "جوامع "صرف نماز جمعہ کے لیے ہوتی ہیں۔ جمعہ کی نماز کے بعد وہ بند کر دی جاتی ہیں اور پھر اگلے جمعہ کو کھلتی ہیں (يغلق بعد صلاة الجمعة إلى جمعة الآخر ) اسی طرح ایک اور بڑی مسجد پر پہنچے تو وہاں بھی تالا لگا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ بھی جامع مسجد ہے اور وہ ہفتہ میں ایک بار صرف جمعہ کی نماز کے لیے کھولی جاتی ہے۔ یہ بات پہلی بار صرف یہاں دیکھی۔
کئی عام مسجدیں دیکھیں ۔ ایک کا نام مسجد السید الحاج مالک سی تھا۔ یہ مسجد پہلی عالمی جنگ سے پہلے ۱۹۰۹ میں بنائی گئی تھی۔ پوری مسجد ایک بڑے ہال کی مانند تھی ۔ سامنے خوبصورت انداز میں امام کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ بنی ہوئی ہے۔ مسجد کا یہ انداز مجھے بہت پسند ہے۔
ایک بڑی دینی درس گاہ دیکھی۔ اس کا نام المعہد الاسلامی (دکار) تھا۔ اس وقت وہاں تعطیل تھی۔ تاہم عمارت کھلی ہوئی تھی ۔ اس لیے اندر تک پور ا حصہ دیکھا۔ اس کا طرزِ تعمیر بالکل مسلم اسپین کےانداز کا ہے۔
راستہ میں ایک مقام پر بہت بڑی عمارت پرنظر پڑی جو نا مکمل تھی۔ میرے ساتھی نے بتایا کہ یہ مرکز عراق کے تعاون سے بن رہاتھا اور خود صدر صدام حسین نے اس کی بنیاد رکھی تھی مگر اس کے بعد ایران عراق جنگ چھڑ گئی۔ اس بنا پر اس کی عمارت مکمل نہ ہو سکی۔ یہ مرکز میری نظر میں اس اصول کی ایک مثال تھا کہ : ایک کام کرنے کے لیے آدمی کو دوسرا کام چھوڑنا
پڑ تا ہے ۔ آدمی کے وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ تعمیر اور تخریب دونوں کام ساتھ ساتھ کر سکے۔ ایران اور عراق دونوں اس اصول کے زندہ نمونے ہیں۔
الشيخ عبد العزیز سی دکار شہر دکھاتے ہوئے آخر میں مجھ کو سمندر کے کنارے کی سڑک سے واپس لائے۔ ایک طرف سمندر کی موجیں تھیں ۔ دوسری طرف سڑک کے کنارے دور تک سفیروں کے خوبصورت مکانات تھے۔ چکنی سڑک پر آٹو میٹک کا رنہایت ہموار انداز سے چلی جار ہی تھی ۔ مگر اتنی دیر میں میرےسر میں درد شروع ہو چکا تھا۔ میرا یہ حال نہایت عجیب ہے ۔ میرے وجود میں غم اتنا سرایت کیے ہوئے ہے کہ میں کسی بھی چیز سے محظوظ نہیں ہو سکتا۔ اپنی کمزوریوں اور نا اہلیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو اکثر میری زبان پر فارسی کا یہ مصرعہ آجاتا ہے :
در حیرتم کہ دہقان بہ چہ کار کشت ما را
ایک اعلی تعلیم یافتہ افغانی سے ملاقات ہوئی ۔ وہ اب یورپ میں رہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آج کل اکثر تعلیم یافتہ افغانی بیرونی ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ افغانستان کا اصل مسئلہ روسیوں کا افغانستان میں آنا نہیں ہے، بلکہ تعلیم یافتہ افغانیوں کا افغانستان سے چلا جانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ روسی جارحیت کی بنا پر ایسا ہوا۔ میں نے کہا کہ ایک کہنا درست نہیں ۔ کیوں کہ اسی قسم کا واقعہ پاکستان میں بھی ہوا ہے ، جب کہ پاکستان میں کوئی بیرونی جارحیت نہیں ہوئی ۔ پاکستان مسلم ہوم لینڈ کے طور پر بنا۔ مگر جب پاکستان بن گیا تو وہاں کے بیشتر اعلی تعلیم یافتہ افراد بیرونی ملکوں میں چلے گئے ۔
میں نے کہا کہ اس ترک وطن کی اصل وجہ سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی ہے ۔ افغانستان یا پاکستان کے اعلی تعلیم یافتہ لوگ اس لیے باہر کے ملکوں میں چلے گئے کہ ان کے لیے اپنے ملک کے مقابلےمیں غیر ملک میں اقتصادی مواقع زیادہ تھے ۔ ہمارے تمام رہنما سو برس سے بھی زیادہ عرصہ سے سیاسی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ تھی کہ وہ اقتصادی ترقی کے لیے جد و جہد کرتے ۔ کیوں کہ اقتصادی ترقی کے بغیر سیاسی آزادی بے معنی ہے۔
جنوبی افریقہ کے ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی ۔ انھوں نے کہا کہ ایک پادری سے میری بحث ہوئی ۔ پادری نے ایسا سوال کیا جس کا میں جواب نہ دے سکا ۔ پادری نے مجھ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر غلطی نہیں کرتا۔ میں نے کہا ہاں، پھر اس نے کہا کہ آپ آدم کو پیغمبر مانتے ہیں۔ میں نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ خود آپ کے قرآن کے بیان کے مطابق، آدم نے جنت میں ممنوعہ پھل کھایا اور غلطی کی۔ میں کنفیوزن میں پڑ گیا۔ میری سمجھ میں کچھ جواب نہیں آیا۔
میں نے کہا کہ ہمارا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ پیغمبر غلطی نہیں کرتا ۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر غلطی پرقائم نہیں رہتا۔ اگر آپ پادری کے سوال پر پہلے ہی اس کی وضاحت کر دیتے تو اس کا اعتراض اپنےآپ ختم ہو جاتا۔
دکتور اسماعیل عبد الحلیم (عمر۵۰ سال )لندن میں رہتے ہیں ۔ لندن کے مسلمانوں کے حالات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہاں مسلمانوں میں سب سے زیادہ بر صغیر ہند کے لوگ رہتے ہیں۔ ساؤتھ ہال میں ہندستانی ، بریڈ فورڈ میں پاکستانی اور ایسٹ اینڈ میں بنگلہ دیشی ۔ یہ لوگ یہاں اپنے انھیں رواجوں اور انھیں عادتوں کے ساتھ رہتے ہیں جو وہ اپنے ملک سے لے آئے ہیں۔
میں نے کہا کہ پھر انگریز انھیں ناپسند نہیں کرتے ۔ انھوں نے کہا کہ انگریزوں میں ٹالرنس غیر معمولی حد تک پایا جاتا ہے۔ عرب ان کے اس مزاج کو البرودة الإنجليزيۃ کہتے ہیں ۔ انگریز کبھی آپ سے یہ نہیں کہے گا کہ وہ آپ کو پسند نہیں کرتا۔ یا یہ کہ تم اپنے ملک کو واپس چلے جاؤ ، خواہ وہ آپ کے اوپر کتنا ہی زیادہ غصہ کیوں نہ ہو (لا يقول الإنجليزى إنه لا يحبك أو عليك أن ترجع إلى بلدك مهما كان هو غاضباً عليك)
یہی تحمل قوموں کی ترقی کا راز ہے جو قوم تحمل اور برداشت کی صفت کھو دے ، وہ موجودہ دنیا میں کبھی اعلیٰ ترقی نہیں کر سکتی۔
طارق الکر دی ایک عرب نوجوان ہیں۔ وہ ڈبلن (یورپ) میں رہتے ہیں ۔ ان کے ایک واقف کار نے بتایا کہ وہ وہاں اسلامی مرکز کے طرز پر باقاعدہ دعوت کا کام کر رہے ہیں ۔ انھوں نے دو چھپے ہوئے انگریزی پمفلٹ مجھے دیے۔ یہ میرے دو مضامین کے انگریزی ترجمے تھے۔ ان کو چھاپ کر وہ وہاں تقسیم کر رہے ہیں ۔ ان کے عنوانات یہ ہیں :
1: What is Islam
2: Islam in the 21st Century
ایک اور صاحب جو بحرین سے تعلق رکھتے تھے ، انھوں نے بحرین کا عربی مجلہ (الهداية ) (جمادی الاولی ۱۴۱۰ ھ ، دسمبر ۱۹۸۹ ) دیا۔ یہ مجلہ بحرین کی وزارة العدل والشئون الإسلامية کی طرف سے شائع ہوتا ہے۔ مذکورہ شمارہ میں راقم الحروف کی کتاب "تجدید دین "کے عربی اڈیشن کامفصل تعارف "تجدیدعلوم الدین " کے عنوان سے چھپا ہے ۔ تبصرہ نگا ر دکتور کارم السید غنیم ہیں ۔آٹھ صفحہ کے مفصل تعارف کے بعد آخر میں لکھتے ہیں : ختاماً فإننا نرى الكتاب الحالي من الأهمية بمكان عظيم ويتوجب على كل مسلم غيور أن يتعرف على ما جاء فيه(صفحہ ۷۱)
الرسالہ مشن کی جتنی مخالفت کی گئی ، اتنی شاید موجودہ زمانے میں کسی بھی تحریک کی مخالفت نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود یہ اللہ کا فضل ہے کہ یہ مشن ہندستان ، پاکستان ، عرب ممالک اور مغربی ممالک میں پھیل گیا۔ اور اب ان شاء اللہ کسی کی مخالفت اس فکری سیلاب کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ڈاکٹر اسماعیل عبد الحلیم مالیزیا (سلانگور )کے رہنے والے ہیں۔ اس وقت وہ لندن میں ایک کالج سے وابستہ ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ میں جولائی ۱۹۹۰ میں اپنے وطن واپس چلا جاؤں گا۔ ہمارے یہاں حکومت میں امور مذہبی کا ایک شعبہ ہے۔ اس میں مجھے کام کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مجھے مشورہ دیجیے کہ ما لیز یا پہنچ کر میں کس طرح مسلمانوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کام کروں ۔
گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ ایک صورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں زکوۃ کا نظام رائج کیا جائے۔ میں نے کہا کہ آپ زکوۃ کے نفاذ سے اپنے کام کا آغا زنہ کریں۔ یہ طریقہ ضیاء الحق صاحب کے زمانہ میں پاکستان میں ناکام ہو چکا ہے ۔ موجودہ صورت میں زکوۃ ایک مسلمان کو دہراٹیکس معلوم ہوتی ہے ۔ پھر وہ کیسے اس پر راضی ہو سکتا ہے ۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو کچھ کہا وہ میرے لیے نئی بات تھی ۔ انھوں نے کہا کہ مالیزیا میں زکوۃ کی اداشدہ رقم کو ملکی ٹیکس میں محسوب کر دیا جاتا ہے ۔ اس لیے وہاں دہراٹیکس کی صورت نہیں پیدا ہوتی :
المسلم في ماليزيا عليه أن يدفع ضريبة الدخل السنوى وزكاة المال إذا كان غنياً - وإذا دفع المسلم زكوة المال التي عليه فله الحق قانونياً أن يقول للحكومة عليك أن تحسب هذا المبلغ الذى دفعته باسم الزكاة، هو فى حد ذاته جزء من ضربية الدخل حقي۔
حسب پروگرام ۷مئی کی شام کو کانفرنس کا افتتاح ہوا ۔ یہ افتتاح صدر مملکت عبدہ ضیوف نے کیا۔ یہ پروگرام یہاں کے سب سے بڑے ہال میں کیا گیا تھا۔ وسیع ہال مکمل طور پر بھرا ہوا تھا۔ کثیر تعداد میں لوگ ہال کے باہر موجود تھے۔ یہاں اکثر پروگراموں میں میں نے دیکھا کہ عوام ہزاروں کی تعداد میں اکھٹا ہیں۔ عام طور پر اس طرح کی کانفرنسوں میں محدود تعداد میں صرف علماء اور دانشورشریک ہوتے ہیں۔ مگر یہاں عوامی شمولیت کا منظر نظر آیا۔
میں نے سنا تھا کہ صدر عبدہ ضیوف افریقہ کے سب سے زیادہ لمبے آدمی ہیں۔ میرے ذہن میں ان کی تصویرکچھ اس طرح تھی کہ وہ جب آئیں گے تو تمام شرکاء باعتبار قد چھوٹے نظر آنے لگیں گے ۔ ان کا قد کچھ لمبا ضرور ہے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قد کے بارے میں جو شہرت ہے وہ "بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے " کے اصول کے تحت عمل میں آئی ہے۔
افتتاح رسمی انداز کا تھا۔ تاہم اس کی ایک چیز نے مجھ کو بہت متاثر کیا۔ اس افتتاح میں قرآن کی تلاوت ایک افریقی بچہ نے کی۔ اس کی عمر گیارہ سال تھی اور اس کا نام علی حر ازم تھا۔ بظاہر دیکھنے میں اس کا چہرہ اور اس کی شخصیت نہایت غیر جاذب تھی۔ مگر اس نے جب قرآن کی تلاوت کی تو وہ اتنی مؤثر تھی کہ آنکھوں میں آنسو نکل آئے۔ میں نے سوچا کہ قرآن کی صورت میں مسلمانوں کو کتنی بڑی طاقت حاصل ہے ۔ قرآن کے ذریعہ ایک بے حقیقت آدمی اپنے کو با حقیقت بنا سکتا ہے۔
کا نفرنس کے ایجنڈے میں دو چیزیں میری خاص دل چسپی کی تھیں :
الدعوة الإسلامية ومتغيرات العصر
المستجدات والتطورات في العالم والعالم الإسلامي
اس موضوع پر لوگوں نے جو اظہار خیال کیا ، اس سے اندازہ ہوا کہ لوگوں کے ذہنوں پر زیادہ تر سیاسی تبدیلیوں یا سیاسی نوعیت کے واقعات کا اثر ہے۔ مثلاً یہ کہ روس اور امریکہ (سپر پاورس) نے آپس میں مفاہمت کر لی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں عالمی سیاست میں زبر دست قسم کی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ بہت سے ممالک جن کو امریکہ اپنی سرپرستی میں لیے ہوئے تھا ، تاکہ ان کو روسی نفوذ سے بچا سکے، اب اس نے ان سے اپنی سر پرستی واپس لے لی ہے ۔ کیوں کہ نئی پالیسی نے سرد جنگ یا گرم جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ اسی میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ امریکہ جو اس سے پہلے مجاہدین کی زبر دست مدد کر رہا تھا۔ اب اس نے اپنی مدد روک دی ہے۔ یہی خاص وجہ ہے جس کی بنا پر نجیب حکومت کے خلاف افغانی مجاہدین کی مہم اچانک بے اثر ہو کر رہ گئی ہے۔
شرکا ءکی طرف سے اس قسم کے بہت سے مسائل کا ذکر کیا گیا۔ میں نے کہا کہ بلاشبہہ نئے حالات نے کچھ نئے سیاسی مسائل مسلمانوں کے لیے پیدا کیے ہیں۔ مگر اس کا اس سے بھی زیادہ بڑا پہلو یہ ہے کہ ان تبدیلیوں نے جدید تاریخ میں پہلی بار اسلامی دعوت کے نئے مواقع کھول دیے ہیں۔
مثلاً سوویت روس میں اس سے پہلے مذہب پر مکمل پابندی لگی ہوئی تھی ۔ وہاں کارل مارکس کا یہ کلمہ دہرایا جارہا تھا کہ " مذہب عوام کی افیون ہے "۔مگر آج روس کے دانشور اعلان کر رہے ہیں کہ خود مارکسزم ایک مزید بد ترقسم کی ذہنی افیون تھی جس کو مارکس نے ایجاد کیا۔ اور وہ اس قابل ہے کہ اس کو دفن کر دیا جائے ۔ اس سے پہلے روس کے علاقہ میں قرآن کا کوئی نسخہ لے جانا قانوناً ممنوع تھا۔ آج خود ایر وفلاٹ قرآن کے دس لاکھ نسخےجدہ سے ماسکو پہنچار ہی ہے۔ وغیرہ میں نے کہا کہ ایسی حالت میں ہم کو چاہیے کہ مشکلات و مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے دعوتی مواقع کو استعمال (avail) کریں۔
شیخ محمود احمد کفتار و (دمشق) نے اپنی تقریر میں ایک مسیحی مبلغ کا قول نقل کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم دنیا کے بعض علاقوں میں ہمار ی تبلیغی کوششیں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہیں جہاں کہ اسلام کا دائرۂ اثر گھٹنا شروع ہو گیا تھا۔ مگر حیرت ناک بات یہ ہے کہ اسلام اچانک خود ہمارے اپنے گھر کے اندر پھیلنے لگا (نجحنا نسبياً بالتبشير في بعض نواحي العالم الإسلامي حيث بدء الإسلام ينحسر ولكننا فوجئنا بالإسلام في عقر دارنا ينتشر)
اسلام اور دوسرے مذہبوں کا فرق یہ ہے کہ دوسرے مذاہب نے تبدیلی اور تحریف کی بنا پر اپنی اصل حیثیت کھو دی ہے ۔ مگر اسلام اپنی فطری صورت پر قائم ہے۔ دوسرے مذاہب کی طرف جب انسان کو لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو انسان اپنی فطری طلب اور موجودہ مذہب میں مطابقت نہیں پاتا۔ اس کے برعکس انسان جب اسلام سے متعارف ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اسلام عین اس کی فطرت کے مطابق ہے۔ وہ فورا ً اسلام کو اپنا لیتا ہے۔
بعض لوگ اپنے ذاتی مذہب پر چلتے ہیں اور اس کو اسلام کی اصطلاحوں میں بیان کرتے ہیں۔ اس قسم کی مثالیں یہاں بھی سامنے آئیں۔ مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو متحرک کیا جائے :
Taqwa is to mobilize the people
میں نے اس کی مزید تشریح پوچھی تو اس کے جواب میں انھوں نے جو تقریر کی اس کے الفاظ سب کے سب میرے لیے معلوم الفاظ تھے،مگر میں کچھ بھی سمجھ نہ سکا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
تفسیرِ اسلام اور تعبیر دین کا یہ طریقہ مشہور مسلم رہنماؤں کے یہاں بھی مکمل طور پر موجود ہے۔ مثلاً سفر سے پہلے میں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کتاب "جہاد فی سبیل اللہ " پڑھی۔ یہ کتاب اردو میں تھی ۔ مگر پوری کتاب میرے لیے ناقابلِ فہم تھی ۔ کیوں کہ اس کتاب میں خطابت اور انشا پردازی تو ضرور تھی مگر دلیل کی نوعیت کی کوئی چیز اس میں میں نے نہیں پائی ۔ اس کتاب میں جن آیتوں یا حدیثوں سے مصنف نے اپنا انقلابی نقطہ ٔنظر نکالا ہے وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ویسا ہی تھا جیسا مذکورہ انگریزی قول میں نظر آتا ہے۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اپنا کارڈ دیا تو معلوم ہوا کہ وہ احمد خلیفہ نیاس ہیں ۔ وہ المعہد الاسلامی الزراعی کے پریسیڈنٹ (رئیس ) تھے۔ ان کے کارڈ پر "جنرل ڈی گال اسٹریٹ " لکھا ہو اتھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دکار میں فرانس کے سابق حکمراں جنرل ڈی گال کے نام سے سڑک موجود ہے۔
جنرل ڈی گال کے نام سے گالزم (Gaullism) کی اصطلاح بنی ہے ۔ ڈیگال کے زمانہ میں سینیگال اور دوسرے کئی افریقی ملکوں میں فرانس کی حکومت تھی ۔ تاہم آزادی کی تحریکوں نے ان مقبوضات کو فرانس کے لیے ایک بوجھ بنا دیا تھا۔ ڈی گال نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ان ملکوں کو یک طرفہ طور پر آزاد کر دیا۔ ڈیگال کے اس عمل نے فرانس کو نئی طاقت دے دی ۔ تاہم فرانس کو زندہ کرنےکا یہ کام صرف اس قیمت پر ہوا کہ اس کے بعد ڈی گال کی سیاسی موت ہو گئی ۔
اکثر حالات میں قوموں کے مسائل کا حل اسی حقیقت پسندانہ تدبیر میں ہوتا ہے ۔مگر قوموں کے رہنما افراد اپنی موت پر راضی نہیں ہوتے ، اس لیے وہ قوموں کو زندگی دینے میں بھی کامیاب نہیں ہوتے۔
۶ مئی ۱۹۹۰ کی سہ پہر کو افریقی بچوں کا پروگرام تھا۔ یہ بے حد موثر پر وگرام تھا۔ مگر وہ چوں کہ عملی نوعیت کا تھا اس لیے اس کو لفظوں میں پوری طرح بیان نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں ایک تنظیم دائرة المسترشدین و المستر شدات کے نام سے قائم ہے۔ سارے ملک میں اس کے مدارس موجود ہیں جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام ہے۔ یہ طلبہ اور طالبات ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوئے۔ انھوں نے کئی بڑے اثرانگیز پروگرام کیے۔
اس پروگرام کا انتظام دکار کے بڑے اسٹیڈیم میں کیا گیا تھا۔ اسٹیڈیم کے ایک طرف مہمان حضرات اونچی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں کھلا ہو ا میدان تھا۔ میدان کے دوسری طرف ہمارے سامنے دوبارہ اونچی نیچی نشستوں پر ہزاروں کی تعداد میں افریقی لڑکے اور لڑکیوں کی قطاریں تھیں۔ سفید لباس یہاں کا قومی لباس ہے۔ چنانچہ سب کے سب مکمل طور پر سفید کپڑوں میں ملبوس تھے۔ سفید کپڑوں میں لپٹے ہوئے ان کے کالے چہرے اس طرح دکھائی دیتے تھے گویا یہ کوئی دوسری مخلوق ہے جو آسمان سے زمین پر اتر آئی ہے۔
ایک شخص سیٹی لیے ہوئے میدان کے درمیان کھڑا ہوا۔ اس کی سیٹی پر کنارہ کے گیٹ سے لڑ کے اور لڑکیاں منظم ٹولیوں کی صورت میں سفید کپڑوں کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے سامنے سے گزرنے لگے۔ باری باری ایک ایک ٹولی آرہی تھی اور مخصوص انداز میں مارچ کرتی ہوئی ایک طرف سے دوسری طرف جارہی تھی۔ ایک آدمی ماہرانہ اندازہ میں سیٹی بجا کر اور ہاتھ سے اشارہ کر کے ان کی رہنمائی کر رہا تھا۔ اس طرح تقریباً ۲۰ مدرسوں کے طلبہ وطالبات گزرے۔
یہ منظر بڑا اثر انگیز تھا۔ وہ میرے لیے قیامت کے اس واقعہ کی تمثیل بن گیا جس میں کہا گیا ہے کہ وَسِيقَ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوۡاْ رَبَّهُمۡ إِلَى ٱلۡجَنَّةِ زُمَرًاۖ [الزمر: 73] ایسا معلوم ہوتا تھا گویا اہل جنت کے قافلے ایک کے بعد ایک آرہے ہیں۔ اور خدا کا نمائندہ بلندی پر کھڑا ہوا ان کو جنت کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔
سینیگال (اور مغربی افریقہ کے دوسرے ملکوں) میں بعض رواج بڑے عجیب ہیں جو قدیم قبائلی دور سے چلے آرہے ہیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ اگر آپ کسی افریقی عورت کو دیکھیں کہ اس کے سینہ کے اوپر کا حصہ کھلا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ابھی غیر شادی شدہ ہے اور اگر سینہ کے اوپر کا حصہ ڈھکا ہوا ہے تو وہ شادی شدہ ہوگی (إذا وجدت أو رأيت فتاة عارية من فوق صدرها فهذه دلالة على أنها لا تزال بكراً و العكس هو الصحيح)
اس جملہ میں والعكس هو الصحيح انگریزی اسلوب (and vice versa) کا ترجمہ ہے۔ انگریزی اور فرانسیسی اسالیب اس طرح کثرت سے جدید عربی میں رائج ہو گئے ہیں۔
ایک صاحب سے ملنے کے لیے میں ان کے ہوٹل کے کمرہ میں داخل ہوا ۔ ٹیلی ویژن کھلا ہوا تھااور وہ اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ آج ساری دنیا میں کروڑوں انسان روزانہ ٹیلی ویژن پر واقعات کی تصویر یں دیکھتے ہیں اور اس کو دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں مگر شاید ہی زمین پر کوئی انسان ہو جو ٹیلی ویژن دیکھے تو اس کو ٹیلی ویژن کے پر دہ پر خود اپنا فلم دکھائی دینے لگے۔ وہ یہ سوچ کر تڑپ اٹھے کہ قیامت میں اگر خدائی ٹیلی ویژن پر میری زندگی کا ریکار ڈ اسی طرح عیاں کر دیا گیا تو میرا انجام کیا ہوگا۔
ایک صاحب سے میں نے یہ بات کہی تو انھوں نے ایسا جواب دیا جس نے میری زبان کو بند کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم ان سب اندیشیوں میں نہیں رہتے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارا راستہ سیدھا جنت کی طرف چلا جا رہا ہے۔ اصحاب رسول کو جو ایمان ملا تھا وہ تو ان کو رجاء اور خوف کے درمیان رکھتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے ایسا اسلام دریافت کر رکھا ہے جس میں " خوف" حذف ہو گیا ہے۔ اب ان کے لیے ایمان صرف رجاء ہی رجا ءہے ، اس میں خوف اور اندیشہ کا گزر نہیں۔
۸ مئی کی سہ پہر کو کانفرنس کے تمام شرکاء قافلہ کی صورت میں دکار کے باہر اس مقام پر لے جائے گئے جہاں المؤتمر الاسلامی کا مرکز زیر تعمیر ہے۔ یہ عظیم مرکز سعودی عرب ، کویت ، لیبیا ، عرب امارات ، اوردوسرے عرب ممالک کے مشترک مالی تعاون سے تعمیر کیا جارہا ہے۔
دیو پیکر مشینیں ، اونچی دیواریں ، بلند و بالاستونوں کے درمیان آدمی اپنے قد کو چھوٹا محسوس کر رہا تھا۔ لوگ متحیر نگاہوں سے اس عمارتی پہاڑ کو دیکھ رہے تھے جو ان کی آنکھوں کے سامنے وسیع میدان میں ابھرتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ مادی حقیقتوں کی اس ظاہری عظمت کے سامنے کون ہوگا جو معنوی حقیقتوں کی مخفی عظمت کو محسوس کرے اور اس کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس کے آگے جھکا دے۔ یہ بھی شاید خدا کے قانون ِالتباس ( انعام: ۹) کا ایک پہلو ہے کہ اگر چہ اللہ کے نزدیک ساری عظمت اور ساری اہمیت صرف معنوی حقیقتوں کو حاصل ہے ، مادی حقیقتیں اللہ کے
نز دیک جناح بعوضۃ (مچھر کے پر) کے برابر بھی وزن نہیں رکھتیں۔ مگر امتحان کی اس دنیا میں معاملہ کو عملاً بالکل الٹ دیا گیا ہے۔
کیسا عجیب ہے یہ امتحان، اور کیسے عجیب ہوں گے وہ لوگ جو اس امتحان میں پورےاتریں۔ یہی لوگ خدا کے قریب جگہ پائیں گے۔
۹ مئی ۱۹۹۰ کی شام کو "قصرالرئیس " میں جمہوریہ سینیگال کے صدر عبدہ ضیوف کے ساتھ اجتماعی ملاقات ہوئی۔ اس عمارت کی تصویر اس سے پہلے میں نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں دیکھی تھی۔ اس لیے جب میں وہاں پہنچا تو مجھے اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ باہر سے وہ مجھے دیکھی ہوئی عمارت کی طرح نظر آئی۔ فرانسیسیوں کی بنائی ہوئی یہ عمارت انتہائی سادگی کے باوجود انتہائی پر شوکت ہے۔
جب میں اس "قصر" میں داخل ہوا اور اس کے مختلف حصوں سے گزرتا ہوا اس مخصوص ہال میں پہنچا جہاں صدر کے ساتھ ملاقات مقرر تھی تو میرا پہلا تاثر یہ تھا : اقتدار کی شان و شوکت اتنی زیادہ ہے کہ مشکل ہی سے کوئی شخص ایسا ہو سکتا ہے جو اس کو دیکھے ، اس کے باوجود اس کا طالب نہ بنے۔
صدر سے ملاقات کے بعد کلچرل منسٹر کی رہائش گاہ پر ملاقات کا پروگرام تھا۔ وہاں پہنچے تو گانے کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی۔ صدر کی رہائش گاہ میں مکمل سکون تھا۔ مگر کلچرل منسٹر کی رہائش گاہ میں شاید عہدہ کی رعایت سے صوتی آرٹ کا مظاہرہ کیا جارہاتھا۔ یہاں ہم نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی ۔
یہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں پاکستان اور ایر ان کے سفیر بھی تھے۔ میرا ارادہ ہندستان کے سفیر سے ملاقات کرنے کا تھا۔ مگر معلوم ہوا کہ ہندستان کا سفارت خانہ اس وقت بغیرسفیر ہے۔ سکنڈ سکریٹری ضروری فرائض انجام دے رہے ہیں۔
شام کا کھا نا ایک لبنانی تاجر کے یہاں تھا ۔ وہ لبنانی عرب ہیں اور ان کا نام فوا د شقیری ہے۔ وہ یہاں امپورٹ اکسپورٹ کا بزنس کرتے ہیں۔ ان کا عالی شان مکان بتا رہا تھا کہ وہ اپنی تجارت میں نہایت کامیاب ہیں۔ آج کے کھانے پر پریسیڈنٹ مسٹر عبدہ ضیوف بھی مدعو تھے۔ مگر کسی وقتی سبب سے نہ آ سکے۔ ان کی طرف سے ان کے ایک نمائندہ نے شرکت کی۔
۹ مئی کو تو اون (Tivoouane) کا پروگرام تھا۔ یہاں سینیگال کے بہت بڑے شیخ عبدالعزیزسی (الخليفة العام للطائفة التيجانية) رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف بہت ضعیف ہو چکے ہیں، بلکہ دونوں آنکھوں سے معذور بھی ہیں۔ ان کا معاملہ یہاں تقریباً وہی ہے جو سعودی عرب میں شیخ باز کا ہے۔
صبح کو ۹ بجے دکارسے تو اون کے لیے قافلہ کی صورت میں روانگی ہوئی ۔ سڑک نہایت عمدہ اور کشادہ تھی۔ اس کا بیشتر حصہ سمندر ( البحر المحیط) کے کنارے کنارے گزرتا ہے۔ درمیان میں بعض گاؤں دکھائی دیے۔ مکانات معمولی انداز میں بنائے گئے تھے۔ پختہ تعمیرات زیادہ تر قدیم فرانسیسی طرز کی نظر آئیں۔
درمیان میں ایک تعلیمی ادارہ( دار العلوم ) دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے بورڈ پر اس کا نام معھد الأزهر للدراسات الإسلامية (511554Tel ) لکھا ہوا تھا۔ ہم لوگ اس کے اندر گئے۔ اس کے کئی درجات دیکھے ۔ کلاس کی صورت اسکولوں کی مانند تھی۔ ایک طرف دیوار کالی کر کے اس کو بلیک بورڈ کی صورت دی گئی تھی۔ یہاں استاد کھڑا ہوا تھا۔ سامنے ڈسک پر طلبہ بیٹھے ہوئے تھے۔ استاد عربی زبان میں لکچر کے انداز میں انھیں پڑھا رہا تھا۔
یہ طریقہ مجھے پسند آیا ۔ ہندستان میں کثرت سے عربی مدارس قائم ہیں۔ مگر ان میں ذریعۂ تعلیم اردو رکھا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آدمی عربی مدرسہ سے فارغ ہو جاتا ہے مگر عربی بولنے کی صلاحیت اس کے اندر پیدانہیں ہوتی ۔
اس کے بعد ہم تو اون پہنچے ۔ یہاں خلیفہ الحاج عبد العزیز سی سے ملاقات ہوئی۔ یہ اندازہ ہوا کہ انھیں عوام میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔ آج ان کی اپیل پر بے شمار لوگ کا نفرنس کے شرکاء کے استقبال کے لیے نکل پڑے تھے ۔ اس سے پہلے دکار کے اجتماع میں میں نے دیکھا کہ وہاں خلیفہ کے نمائندہ نے تقریر کی اور پریسیڈنٹ نے تقریر کی۔ مگر خلیفہ کے نمائندہ نے جب خلیفہ کا ذکر کیا تو ان کے لیے پریسیڈنٹ سے بھی زیادہ تالیاں بجائی گئیں۔
یہاں کے سیاسی لیڈر اس راز کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ مذہبی رہنماؤں کو بالکل نہیں چھیڑتے۔وہ ان کا احترام کرتے ہیں۔ شاہ ایران نے اسی معاملہ میں غلطی کی اور اس کی قیمت اسے یہ دینی پڑی کہ اس کا اقتدار ایران سے ختم ہو گیا۔ شاہ ایران کو جس چیز نے ختم کیا وہ خود شاہ کے غیر حکیمانہ اقدامات تھے ، اور سینیگال کے سیاسی لیڈر اس غلطی سے اپنے آپ کو مکمل طور پر بچائے ہوئے ہیں۔تو اون کا اجتماع الحاج عبد العزیزسی کی موجودگی میں ہوا۔ یہاں پریسیڈنٹ کا ایک نمائندہ بھی موجود تھا۔ اس نے ایک سے زیادہ بار یہ جملہ دہرایا : ذالك ببركة دعوات أسلافنا الكرام (باقی)